تحریر: محمد نوازطاہر
گاؤں کے سکول میں دوسری جماعت کے بچے کو سو تک انگریزی آنا ستر کی دہائی کے اوائل میں بہر حال ایک خصوصی بات تھی، دوسرے بچے نے یہ جاننے کے لئے کہ گنتی درست بھی ہے یا’ جٹکے امتحان‘ جیسی ہے، چاک ناک اور آنکھوں کے درمیان رکھے دھوپ تاپتے ماسٹر جی سے پوچھا کہ ماشٹر جی، ماشٹری جی ہنڈرڈ کیہنوں آہندے نیں؟ ماسٹر جی کو اُس کا ڈسٹرب کرنا تو شائد اتنا مناسب نہیں لگا لیکن عجیب ضرور لگا، ماسٹر جی نے اس کی طرف غور سے اور مجھے گھور کر دیکھا، پھر کچھ سوچ کر، توقف سے بولے سو ہوتا ہے ہندرڈ ، میں ایزی ہوگیا اور سوال کرنے والے پریشان مگر میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ کیا ماسٹر جی کو گنتی بھول گئی تھی جو فوری جواب نہیں دیا۔۔۔ یہ جاننے کی ’گستاخی‘ اس دور اور عمر میں، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔
سوشل میڈیا، نجی ٹی وی چینلز پر صحافیوں کی گفتگو کے حوالے سے کچھ لوگوں کے پیدا ہونے والے سوالات و خیالات کے ساتھ ’صحافی‘ تعریف اور وضاحت کرتے ہوئے مجھے خود ایک انٹرویو میں جواب دیتے ہوئے ماسٹر مشتاق جیسی کیفیت کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔۔ اس سے مجھے عشروں قبل جہاں یہ واقعہ یاد آیا،وہیں اپنے پرانے سوال کا جواب بھی مل گیا۔ایک ریاستی ادارے کی اشاعتی و نشریاتی انٹرویو کے دوران میں ایک سوال کا جواب لکھ رہا تھا تو مجھے سوچنا پڑا کہ آج اِس موجودہ دور اور کاروبارِ صحافت میں صحافی کسے کہا جائے؟ خیر جو بھی لکھنا تھا وہ تو لکھ دیا۔۔
پیشہ صحافت جتنے زوال میں ان دنوں ہے، ماضی میں کبھی نہیں رہا، خاص طور پر پیشہ وارانہ،ذہنی و شعوری انحطاط۔۔۔یہ انحطاط میری اس تحریر میں بھی نظر آئے گا جبکہ اس پیشے سے وابستگی کے تیسرے عشرے کا پہلا نصف بھی قریب الا ختتام ہے۔
کیا پرانے سینئر حضرات جو کچھ رہ گئے ہیں یا وہ جو کچھ صرف عمر کی بنا پر سینئر ہیں، رہنمائی فرمائیں گے کہ کیا سکرین اور کاغذ پر نظر آنے والی صحافت وہی ہے جس کی آزادی کے لئے جسم و جان اور خاندان داؤ پر لگا کر جدوجہد کی گئی تھی؟ کیا اس آزادی سے کارکن(عامل) صحافی مستفید ہورہا ہے یا متاثر ہورہا اور مسائل میں جکڑا گیا ہے؟، یہ آزادی ہے بھی یا نہیں؟، ہے تو کونسی؟ کس کی؟
ان سوالوں کے جواب ملنے تک اطمینان نہیں ہوگا، تب تک وہ حالات تو دہرائے جائیں جو کبھی عامل صحافی کو ماحولیاتی آلودگی سے پاک ملتے تھے، جن میں یہ نہیں ہوتا تھا کہ آج کسی سیاسی جماعت کا کا جلسہ ہے تو اس پارٹی کی کوریج کا ذمہ دار رپورٹر اخبار کے لئے اس جلسے کا اشتہار بھی لائے گا ورنہ سرزنش ہوگی۔ سب ایڈیٹر کو یہ ’خیال‘ یا خوف نہیں ہوتا تھا کہ خبر کے لئے فراہم کیے جانے والے الفاظ کو سامنے رکھتے ہوئے جو سرخی جمانی ہے اس سے ناراض اور خوش کون ہوگا؟رپورٹر، فوٹو گرافر اور سب ایڈیٹر کے پیشِ نظر صرف عوامی دلچسپی اور سماجی ہوتی تھی اور سماجی، اخلاقی بگاڑ سے اجتناب ہی صحافت پر واحد قدغن تھی۔
فرق کیا پڑا ہے؟ کاغذ کے کوٹے، سرکاری اشتہارات، معاشرے میں رعب، انتظامیہ سے تعلقات۔۔جرائم پر پردہ، نئے کاروبار کے لئے آسان راستے ۔ جن لوگوں کو صحافی سے خوف محسوس ہوتا تھا، انہوں نے’آقا‘بن کر صحافیوں کو’غلام‘ بنا لیا۔ صحافیوں نے’مالکی ایجنڈے پر عملدرآمد نوکری پکی کرتے ہوئے‘ بحکمِ حاکماں جس کا چاہا جیسا چاہا پوسٹمارٹم کیا اور باہم ایک دوسرے کے کپڑے بھی اتارے، بیچ چوراہے اور بند کمروں میں بھی، رہنمائی کرنے والے رخصت ہوتے گئے اور مس گائیڈ کرنے والے مفاد پرست غالب آتے گئے، یہ اتنے غالب ہیں کہ دیانتدار (حقیقی) صحافیوں کی اکثریت ہونے کے باوجود بد دیانت، جانبدار، مالکی اور سرکاری، اندرونی یرونی ا یجنڈے والے چھائے ہوئے ہیں۔ عوام الناس بھی انہیں ہی صحافی مانتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ان دنوں ہمارے صحافی کہلانے والے بھائی بھی صحافیوں سے زیادہ عوام الناس والی ہی گفتگو کرتے ہیں۔ تاریخ، تہذیب، قانون، سیاست سماج، دنیا، مذہب، عقائد، اپنے بارے میں علم نہ تنظیموں اور اسلاف و اکابرین سے واقفیت صرف اور صرف پریس کلبوں کے بارے میں جانتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ پریس کلب کا فوری ممبر بننا ہے، اگلے دن پلاٹ، فلیٹ لیناہے اور اس سے بھی پہلے سینئر لکھوانا اور کہلوانا ہے۔رہبری و رہنمائی اس قدر کوٹ کوٹ کر بھری ہے کہ فوری تنظیمی دھڑا کھڑا کرتے ہیں اور فیس بک یا ویٹس ایپ گروپ بنا کر پوری کمیونٹی کی نمائندگی فرض کرلیتے ہیں جبکہ اپنے ادارے میں تنخواہ نہ ملنے پر لب کشائی سے بھی ڈرتے ہیں، سرکاری ملازمین، وزیروں مشیروں اور دکانداروں، فنکاروں کے ساتھ سیلفی کے معرکے سر کرتے ہیں، تحریکی ذہن نہیں تفریحی ذہن کا بھرپور استعمال کرتے ہیں اور اس کے آسان راستے ڈھوندتے ہیں جس دوراں اگر کوئی فقرہ چست کردے تو صحافت کو توہین ہوجاتی ہے، مالکان کا قرب حاصل کرنا سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے اور ہندرد پرسنٹ پرفیکٹ صحافی ہیں۔ یہ ہیں پیدائشی سینئر صحافیوں کے اوصاف ِخصوصہ۔۔۔ صحافی ایسے تو نہیں ہوا کرتے تھے نہ ہوتے ہیں اور نہ ہی خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں یعنی کبھی کوئی صحافی خود کو ہنڈرد پرسنٹ پرفیکٹ قرار نہیں دیتا۔۔
جب تک صحافی اپنا قبلہ خود درست نہیں کرتے،یہ اسی حالت میں ہی رہیں گے جیسی حالت میں ستر کی دہائی میں میرے ساتھی بچے نے یقین نہیں کیا تھا کہ ہندرڈ بھی کوئی ہندسہ ہوتا ہے اور اس نے اپنی تسلی کیلئے ماسٹر جی سے تصدیق کی تھی، ایسے ہی ہم غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی غیر معیاری خبروں کو بھی خاص اہمیت دیتے رہیں گے اور ہندرڈ پرسنٹ تو کیا جو کچھ پرسنٹیج تھی اس سے بھی نیچے سے نیچے تک آتے جائیں گے اور دکاندارمالکان یا’دوسرے‘ ہی ہنڈرد پرسنٹ رہیں گے۔(محمد نوازطاہر)۔