تحریر: عمیر علی انجم
گزشتہ ڈیڑھ برس سے مستقل بنیادوں پرجاری صحافیوں کے معاشی قتل عام اورجبری بے د خلی کے خلاف یونین لیڈربلآخرباہرآہی گئے اور ایک بڑے میڈیا گروپ کے دفتر کے باہر کیمپ لگاکراس سانپ کی لکیر پیٹ رہے ہیں جو اب نکل بھی گیا ہے ۔۔صحافیوں کو بے روزگار کرنے کی یہ وبا آج نہیں پھیلی،،، بلکہ 2016میں اس کا آغا ز روزنامہ ایکسپریس سے ہوگیا تھا لیکن اس وقت کسی کو اس بات کی پروا نہیں تھی ۔صحافی رہنماؤں کو اپنی نوکریاں زیادہ عزیز تھیں اور وہ سمجھتے تھے ان چند ”مزارعے صحافیوں”کی برطرفیوں سے ان کے دامن پر کوئی چھینٹ نہیں آئے گی ۔اس وقت بھی میں نے سینئر دوستوں کو مشورہ دیا تھا کہ ”چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں ”اس لیے بروقت اقدامات کیے جائیں اور اس معاشی قتل عام کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی جائے اور لاکھانی برادرز کوا س عمل سے روکا جائے تاہم میری ناتواں آواز۔۔ آوازوں کے ہجوم میں گم ہوگئی اور اس کے بعد چل سو چل جو سلسلہ شروع ہوا وہ آج تک جاری ہے ۔بات اب صرف لوگوں کو نوکریوں سے فارغ کرنے تک محدود نہیں رہی ہے بلکہ ادارے تک بند ہونے لگے ہیں تو ہمارے ”رہنما”علم اٹھائے میدان میں آکھڑے ہوئے ہیں ۔میری ذاتی رائے میں اب تو پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ گیا ہے ۔اب یہ بے وقت کی راگنی ہے ۔میرا یہ مشورہ شاید لوگوں کو برا لگے لیکن میں اپنے صحافیوں بھائیوں کو مخلصانہ مشورہ دوں گا کہ اب چاہے تابعداری کریں ،خوشامد کریں یا پھر تنخواہوں میں کٹوتی کروالیں لیکن صرف اور صرف اپنی نوکریوں کی فکر کریں کیونکہ” ہمیں رہنما نہیں نوکری چاہیے ”۔یہ نمائشی احتجاجی کیمپ نہ میرے بچوں کا پیٹ بھریں گے اور نہ آپ کے ۔۔۔نجانے کیوں مجھے آج جنگ پریس کے سامنے احتجاجی کیمپ میں” صحافی رہنماؤں” کو دیکھتے ہوئے مرزااسداللہ خاں غالب بے تحاشہ یاد آرہے ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ ” کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ ۔۔۔۔ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا ۔۔۔۔۔(عمیر علی انجم)۔۔