hum style awards be laag tabsara

ہم اسٹائل ایوارڈز،بے لاگ تبصرہ۔۔

تحریر : عظمیٰ رزاق۔۔

ہم اسٹائل ایوارڈز کی رنگارنگ تقریب میں اکثریت نئے چہروں کی تھی جو ریڈ کارپٹ پر اپنے جلوے بکھیر رہے تھے۔۔فیشن اور اسٹائل پر دئیے جانے والے ایوارڈز کی یہ تقریب اپنے مقررہ وقت سے کچھ دیر میں ہی شروع ہوئ لیکن یہ اب ہماری قوم کا مزاج بن چکا ہے دیر سے آنا اور جلدی جانا۔۔ ۔ کیونکہ ریڈ کارپٹ پر ایسے بہت سے سینئر آرٹسٹ تھے جن کو تقریب سے جانے کی بہت جلدی تھی۔ریڈ کارپٹ پر رنگ، خوشبو اور فیشن کے نظارے کے بعد بالآخر ایوارڈز کی باقاعدہ تقریب کا آغاز قومی ترانے سے ہوا۔۔اور اس کے فوراََ بعد کچھ  نوجوانوں کا گروپ  رپ سانگ  پیش کرنے پہنچ گئے۔۔ لاؤڈ میوزک کی وجہ سے  وہ کیا گارہے تھے یہ بالکل سمجھ نہیں آیا۔تقریب کی میزبانی عدنان صدیقی کے ذمہ تھی جنہوں بہت مہارت تو نہ دکھائی لیکن آج کل وہ مارکیٹ میں ان ہیں اس لئے لوگ انہیں شوق سے سنتے اور دیکھتے رہے۔۔

ایوارڈ شو کے دوسرے میزبان آمنہ شیخ اور عثمان مختار تھے ۔۔عثمان ایک ناکام ہوسٹ ثابت ہوئے جو خود اپنے آپ کو ہی لیم جاکس سے انٹرٹین کرتے رہے۔۔۔ان ایوراڈز شو کو اٹینڈ کرنے کے بعد یہ بات شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ ہمارے ان شوز میں اچھا، تفریحی اور معیاری کانٹینٹ لکھنے والوں کی شدیدکمی ہے۔اب بات ہوجائے پرفارمنسز کی۔ احسن خان اور سارہ لورین نے احمد رشدی کے کچھ گانوں پر پرفارم کیا لیکن بہت جان ماری کے باوجود دونوں ہی حاضرین کو متاثر کرنے میں ناکام رہے۔۔ عروہ حسین  اور فرحان سعید نے رنگ تو جمایا لیکن فرحان، شاہ رخ خان کے ڈانس اسٹیپ کو کاپی کرتے رہے۔اگر صحیح معنوں میں میلہ لوٹا تو وہ تھیں زارا نور عباس جو چھلاوہ میں اپنی بے ساختہ اداکاری کے بعد سے آجکل سب کی آنکھوں کا تارہ بنی ہوئ ہیں۔۔زارا نے اپنے ہی ڈرامے”دیوارِ شب ” کے OST اور اقراء عزیز کے ڈرامے “رانجھا رانجھا کردی” کے گانے پر پرفارم کرکے حاضرین کی بھرپور داد سمیٹی ۔

ایوارڈز دینے کا سلسلہ اور عثمان مختار ، آمنہ شیخ اور عدنان صدیقی کی میزبانی چلتی رہی۔پہلی بار اسٹائل ایوارڈز میں کچھ سیاسی جوکز بھی سنائی دئیے۔ٹائم لیس بیوٹی کا ایوراڈ ریما کو دیا گیا۔۔ایک بات جو ایوارڈ شو میں نوٹ کی جاتی ہے وہ یہ کہ جب بھی کسی ونر کا نام اناؤنس ہوتا ہے وہ اسٹیج پر پہنچنے سے پہلے اپنے دوستوں سے مبارکباد وصول کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے اور بیچارے اسٹیج پر کھڑے لوگ ایوارڈ پکڑے ان کا انتظار ہی کرتے رہتے ہیں۔۔ ۔ ان ونرز کی بھی کوئ ٹریننگ ہونی چاہیئے کہ آپ اپنے دوستوں سے مبارکباد ایوارڈ وصول کرکے بھی لے سکتے ہیں۔شو کی خاص بات ابرارالحق کی پرفارمنس تھی لیکن انہوں نے اپنے انہی تین مشہور اور ایک نئے سونگ پر صرف ہونٹ ہی ہلائے۔۔اگر سنگرلائیو نہیں گاسکتا تو کیا فائدہ ایسے سنگر کو اسٹیج پر بلانے کا؟

اس بار ایوارڈ شو کی تقریب بہت رات گئے تک نہیں چلی اور نسبتاً بہتر وقت میں محفل اپنے اختتام پر پہنچی۔۔مجموعی طور پر یہ ایک ایوریج اور کسی حد تک بور ایوارڈ تھے، آرگنائزرز کو سوچنا چاہیے کہ ان یکسانیت بھرے انداز کو کس طرح بدلا جائے؟ اچھا کونٹینٹ اور پراعتماد ہوسٹ تلاش کیا جائے تاکہ تقریب اٹینڈ کرنے والے اور ٹی وی پر ان شوز کو دیکھنے والے مکمل انٹرٹین ہوں۔۔(عظمی رزاق)

(بلاگر کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔

How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں