تحریر: سعدیہ مظہر۔۔
یہ 2018 کی بات ہے۔ پاکستانی نیوز میڈیا میں شہر اقتدار میں ایک بڑے نیوز چینل کے لانچ ہونے کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ مجھے بھی اس چینل سے انٹرویو کی کال آئی۔ بات تعلیمی قابلیت اور تجربے سے زیادہ میری ظاہری شخصیت اور لباس پر مرکوز رہی۔ پھر یہ سلسلہ رات کے پچھلے پہر بات کرنے کی خواہش سے چائے پر ملنے تک پہنچنا شروع ہوا۔بات بڑھی تو معاملہ اسی نئے چینل کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ تک لے جایا گیا۔ گمان تھا کہ مالک خاتون ہیں تو کم از کم ان صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا جائے گا مگر پانچ سال کے بعد بھی وہ صاحب وہیں موجود ہیں۔پاکستان میں کام کی جگہ پر ہراسانی ایکٹ 2010 کے منظور ہونے کے بعد تقریباً ہر ادارے کو اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ وہ اپنے اپنے ادارے میں ہراسانی کمیٹیاں بنائے تاکہ اس طرح کے ہر معاملے سے بخوبی نمٹا جاسکے۔
پاکستان ہر میدان میں صنفی برابری کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے اور اسی کمی کا سامنا پاکستان کی میڈیا انڈسڑی میں بھی ہے۔ وقت بدلنے کے ساتھ میڈیا کی جانب خواتین کا رحجان کچھ بڑھا ضرور ہے مگر کم تنخواہ، بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی اور مرد حضرات کی جانب سے امتیازی سلوک کے ساتھ ساتھ خواتین کو ہراسانی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، جو انہیں اس شعبے سے دور رہنے پر مجبور کرتا ہے۔
پاکستان کے دو بڑے میڈیا ہاؤسز تو ہراسانی کمیٹیاں بنا کر ان پر سختی سے عمل بھی کروا رہے ہیں۔ عائشہ پچھلے پندرہ سال سے ایکسپریس نیوز کے ساتھ کام کررہی ہیں۔ عائشہ کا کہنا ہے کہ مجھے ایک بار ایک شخص کی موجودگی میں کام کرنے سے عجیب الجھن ہونے لگی۔ تب میں نے ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں جاکر شکایت کی اور فوراً اس شخص کی شفٹ بدل دی گئی۔ اس میڈیا ہاؤس میں کام کرنے والی ہر خاتون اتنی ہی مطمئن ہے کہ اس ادارے میں ہراسانی کے حوالے سے کی گئی کسی بھی شکایت کو نرمی سے نہیں لیا جاتا۔تنزیلہ مظہر ایسے ہی ایک ہراسانی کے کیس کو بہت سال سے لے کر چل رہی ہیں اور پی ٹی وی کے افسر پر کیا گیا ہراسانی کا کیس بھی ساتھی خواتین بہت سال بعد عدالت سے جیتیں۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان اداروں میں کام کی جگہ پر ہراسانی کمیٹیاں یا تو موجود نہیں یا پھر مکمل فعال نہیں ہیں۔
میڈیا انڈسڑی میں خواتین کی تعداد کم ہونے کی بہت بڑی وجہ ان کے معاشی اور جسمانی تحفظ کی عدم فراہمی ہے۔ اس موضوع پر بات سننا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی خاتون لب کھول بھی لے تو عموماً اسے ہی چپ کروانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔وفاقی محتسب یا ایف آئی اے تک ایسی کسی بھی شکایت کا اندراج ایک ناممکن سی بات ہے، کیونکہ مردوں کے اس سماج میں اپنے لیے جگہ ڈھونڈ لینا ہی بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر ادارے یا ادارے کے کسی بھی فرد کے خلاف شکایت کا انداراج کروایا جائے تو یہ نوکری سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہوگا۔عائشہ بخش ایک پرائیویٹ چینل میں قائم ہراسانی کمیٹی کو ہیڈ کرتی ہیں اور اس ادارے کے ملازمین کا کہنا ہے کہ اس کیمٹی کے بہتر کام کی وجہ ہی سے ہمارے ادارے کا ماحول بہت دوستانہ اور قابل عزت ہے۔ یعنی عورت کے مسائل کو سمجھنے کےلیے اگر عورت کو اعلیٰ عہدے پر لگایا جائے تو بہتر نتائج سامنے آتے ہیں۔
الیکٹرانک میڈیا میں یہ کمیٹیاں کافی حد تک فعال ہیں مگر یہاں بڑا سوالیہ نشان پرنٹ میڈیا کا ہے۔ پرنٹ میڈیا میں بھی کام کرنے والی خواتین کی تعداد پہلے کی نسبت بہتر ہے لیکن ہراسانی کمیٹی کے حوالے سے سوال بہرحال موجود ہے۔ پاکستان کے بہت بڑے انگلش اخبار کے ایڈیٹر پر بھی ہراسانی کا الزام لگ چکا ہے۔ تو کیا ہماری خواتین ان رویوں سے محفوظ ہیں؟
پاکستان کی وہ انڈسڑی جہاں خواتین آٹے میں نمک کے برابر ہیں، اپنی بقا اور شناخت کی جنگ عرصے سے لڑتی آرہی ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا آنے کے بعد کچھ قوانین پر عمل درآمد پہلے سے بہت بہتر ہوا ہے لیکن ابھی بھی مزید کام کی ضرورت ہے۔فوزیہ ایک چینل میں نیوز پروڈیوسر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ فوزیہ کا کہنا ہے کہ ہمارے ادارے میں کمیٹی کی جگہ ایچ آر کو دی جاتی ہے مگر شکایت، حسرت بن جاتی ہے اور اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی، بلکہ سب پریشر شکایت کنندہ پر آتا ہے۔ اسی وجہ سے بہت سی لڑکیاں خود نوکری چھوڑ کر چلی جاتی ہیں، کیونکہ ہماری انڈسٹری مرد پرور ہے۔ عموماً مرد حضرات اسے انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور شکایت کرنے والی خواتین کےلیے مزید مشکلات پیدا کردیتے ہیں۔
دنیا میں تقریباً 75 فیصد خواتین آن لائن ہراسانی کا سامنا کرتی ہیں، جبکہ 20 فیصد ہراسانی جسمانی صورت میں ہوتی ہے۔ یونیسکو کی اس رپورٹ کے مطابق 49 فیصد خواتین نے ہراسانی بدزبانی کی صورت سہی ہے، جبکہ 25 فیصد کو جسمانی تشدد کا خوف دلوایا گیا۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے 180 ممالک میں 157 نمبر پر ہے۔ سوشل میڈیا کے آنے کے بعد صحافیوں پر آن لائن ہراسانی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ پاکستانی خواتین صحافی اپنے لیے خود آواز بلند کرتے ہوئے بھی ڈرتی ہیں جبکہ ان کا خاندان بھی انہیں چپ رہنے پر مجبور کرتا ہے۔
خواتین صحافیوں کے پاس قانونی مدد بھی میسر نہیں ہوتی۔ ان کا ادارہ بھی اگر ان کا ساتھ نہ دے تب وہ یہی قانونی مدد کسی قانون دان یا کسی بھی اور ادارے سے کیسے لے سکتی ہیں؟ اس حوالے سے بھی بہت سا علم اور معلومات واضح نہیں ہیں۔ پاکستان میں قوانین بن تو جاتے ہیں مگر جب تک ان پر مکمل عمل درآمد نہ ہوسکے تو ان کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔ خواتین ہر شعبے میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔ ایسے میں ان کے تحفظات کو دور کرنا اور ان کو محفوظ ماحول فراہم کرنا حکومت اور اداروں کی مکمل ذمے داری ہے۔(بشکریہ ایکسپریس نیوز)۔۔
(یہ بلاگ ایکسپریس نیوز میں شائع ہوا ہے،جس کے پہلے پیراگراف میں راوی نے اشاروں میں جس چینل کا بتایا، وہ ہم نیوز تھا جو دوہزاراٹھارہ میں لانچ ہوا تھا اور اس کی مالک خاتون ہیں۔۔اسی لئے ہم نے سرخی میں تبدیلی کی ہے۔ باقی متن من و عن ایکسپریس نیوزکے شکریہ کے ساتھ شائع کررہے ہیں۔۔ علی عمران جونیئر)۔۔