تحریر: انصار عباسی۔۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا جو سکینڈل سامنے آیا ہے اُس سے قوم اپنی اخلاقی پستی کا اندازہ لگا سکتی ہے۔ ہم کتنا گر چکے ہیں،حالت اب یہ ہو چکی ہے کہ ہماری بیٹیاں تعلیمی اداروں،جہاں وہ تعلیم حاصل کرنےکیلئے جاتی ہیں،میں بھی محفوظ نہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا جو سکینڈل سامنے آیا ہے اُس میں متاثرہ طالبات کی تعداد اگرچہ بہت زیادہ ہے۔تاہم مر د اساتذہ اور سٹاف کے روپ میں جو جانور ہم نے کھلے چھوڑ رکھے ہیں اُن کے بارے میں کئی دوسری درسگاہوں کی طالبات اور خواتین کی طرف سے بھی ایسی شکایات سامنے آتی رہتی ہیں۔ سچ پوچھیں تو تعلیمی اداروں کے علاوہ مختلف سرکاری اور نجی اداروں میں کام کرنے والی خواتین کی بڑی تعداد کو بھی جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بہت کم تعداد میں ایسی خواتین شکایت کرتی ہیں جبکہ بڑی تعدادمیں اُس جبر کا شکار ہیں ،جس کے ذمہ دار صرف جانور صفت وہ مرد نہیں جو خواتین کو ہراساں اور بلیک میل کر کے اُن کی عزت سے کھیلتے ہیں بلکہ اس کی ذمہ داری ریاست و حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے اور میڈیا پر بھی آتی ہے۔ افسوس کہ ہماری ریاست ہو، معاشرہ، سیاستدان یا میڈیا سب لبرل بننے کے شوق میں اپنے آپ اور اپنی دینی و معاشرتی اقدار کو بھول گئے، حقوق نسواں اور برابری کے نام پر اپنے ہی معاشرےکی بیٹیوں اور بہنوں کو درندوں کے سامنے ڈال دیا۔ اگر کسی تعلیمی ادارےمیں غیر اخلاقی حرکات کو روکنے کیلئے متعلقہ انتظامیہ کوئی سرکلر جاری کرتی ہے تو سب سے پہلےمیڈیا کا ایک مخصوص طبقہ آسمان سر پر اُٹھا لیتا ہے اور ایسے اقدامات جن کا مقصد تعلیمی اداروں میں اپنی دینی و معاشرتی روایات کے مطابق بچوں کی تربیت کرنا اور اُنہیں ہراسگی یا بے راہ روی سے بچانا ہوتا ہے، اُنہیں سکینڈلائز کرتے ہوئے کہاجاتا ہے کہ دنیا کہاں پہنچ چکی اور ہم اب بھی صدیوں پرانےعہد میںزندہ ہیں۔ حال ہی میں قائداعظم یونیورسٹی میں ہولی کے نام پر جو کچھ ہوا اُس کے حق میں میڈیا اور سیکولر طبقہ نے جو جھوٹ پر مبنی بیانیہ بنایا، اس بیانیہ سے مرعوب ہو کر اور میڈیا کے ڈر کی وجہ سے حکومت اور پارلیمنٹ نے اُسی جھوٹے بیانیہ کو اپنایا، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ جس عمل کی وہ حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اُس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ ؟افسوس تو اس بات کا ہے کہ لبرل بننے کے جنون میں ہم معاشرے کو جس تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں اُس کا کسی کو اندازہ ہی نہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی کے سکینڈل کے سامنے آنے کے بعد ابھی تک ساری توجہ اس بات پر ہے کہ اس غیر اخلاقی حرکت میں تعلیمی ادارے کے اساتذہ کے روپ میں کون کون سے جانور شامل تھے جنہیں نشان ِعبرت بنانے کی ضرورت ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی ہے کہ بحیثیت قوم ہم اس نکتہ پر سوچیں کہ خواتین کے ساتھ تعلیمی اداروں اور نجی و سرکاری اداروں میں ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اگر صرف تعلیمی اداروں کی بات کی جائے تو ریاست اس بات کو یقینی بنائے کہ مخلوط تعلیمی نظام کی بجائے طلبا اور طالبات کیلئے علیحدہ علیحدہ کالج اور یونیورسٹیاں بنائی جائیں۔ سرکاری اور نجی اداروں میں کام کرنے والی خواتین کو بھی ایسا ماحول فراہم کیا جائے جہاں اُن کا مردوں کے ساتھ کم سے کم interaction ہو۔ افسوس کہ اس وقت اپنے کاروبار کو بڑھانے اور پیسہ کمانے کیلئے خواتین کو ’شو پیس ‘کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان بہت عام ہو چکاہے جسے ہر حال میں روکا جانا چاہئے۔ اس پر میڈیا بہت شور کرے گا لیکن یاد رکھیں اگر میڈیا کی ہی سنتے رہے تو پھر آگے مکمل بربادی اور تباہی ہے۔پہلے ہی ہمارے حالات بہت خراب ہو چکے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی معاشرتی برائیوں کو روکنے کیلئے افراد کی تربیت اور کردار سازی کا نظام جنگی بنیادوں پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم سوسائٹی کو بہتر انسان دیں، شرم و حیا کو رواج دیں، مادر پدر آزاد میڈیا کو کنٹرول کریں، والدین اپنے بچوں کو دینی و معاشرتی اقدار سے آگاہ کریں اور اُن پر عمل کرنے کی تلقین کریں۔ بچوں کے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جائیں وہاں کا ماحول دیکھیں، کوئی خرابی ہوتو اُس کے خلاف آواز اُٹھائیں اور اپنے بچوں کو بھی یہی تعلیم دیں۔معاشرتی خرابیوں پر خاموشی دراصل ایسی خرابیوں کو مزید پھیلانے کے مترادف ہے۔ ان معاملات پرلبرل میڈیا سے مت ڈریں ورنہ یہ آپ کو تباہ و برباد کر کے رکھ دے گا۔(بشکریہ جنگ)۔۔
ہم کتنا گرچکے ہیں؟
Facebook Comments