تاثر یہ مل رہا ہے کہ حکومت مغرب کے دباؤ میں انسانی حقوق کے نام پر یہاں بھی ہم جنس پرستی کو پروموٹ کررہی ہے ، اسلام آباد میں کچھ ایسے پوسٹرز آویزاں کیے گئے جو دراصل ہم جنس پرستی یا ایل جی پی ٹی اور ٹرانسجینڈرز کی تشہیر ر کے زمرے میں آتے ہیں، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد اور کچھ دوسرے افراد نے بھی اس مسئلے کو سوشل میڈیا کے ذریعے اُٹھایا لیکن اس پر حکومت کی طرف سے جواب میں خاموشی کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا۔ سینئر صحافی و کالم نگار انصار عباسی نے اہم تفصیلات شیئر کر دیں ۔ سینئر صحافی انصارعباسی نے جنگ میں شائع ہونے والے اپنے تازہ کالم میں لکھا ہے کہ جب اس معاملے پر نگراں وزیراعظم کی توجہ دلوائی تو حکومت کی طرف سے جواب میں خاموشی کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا۔ ایسی اشتہار بازی جو نہ صرف ہماری دینی تعلیمات اور معاشرتی اقدار کے خلاف ہے بلکہ پاکستانی معاشرے میں مزید گندگی اور بے حیائی پھیلانے کا ذریعہ ہے اس کیلئے حکومت خود قوم کا پیسہ لگا رہی ہے۔ اگر حکومت کا یہ اقدام کسی انفرادی عمل کا نتیجہ ہے تو پھر نشاندہی کے باوجود کیوں نہ کسی کی کوئی پوچھ گچھ ہوئی، نہ کسی ذمہ دار کو معطل کیا گیا جس سے تاثر یہ مل رہا ہے کہ حکومت مغرب کے دباؤ میں انسانی حقوق کے نام پر یہاں بھی ہم جنس پرستی کو پروموٹ کررہی ہے ۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ ایک طرف اگر ایسے غیر اسلامی عمل کیلئے حکومت کے پاس پیسے کی کمی نہیں تو دوسری طرف میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ پنجاب میں سکولوں کے نصاب میں شامل بنیادی اسلامی تعلیمات سے متعلق نصاب کی اشاعت کیلئے فنڈز کی فراہمی نہیں کی جا رہی۔اس سلسلے میں سوشل میڈیا کے ذریعے بھی آواز اُٹھائی گئی لیکن پنجاب حکومت کی طرف سے کوئی وضاحت سامنے نہ آئی۔ اگر یہ خبر غلط ہے تو حکومت کو اس کی تردید کرنی چاہیے لیکن کسی صورت بھی تعلیمی نصاب میں شامل بنیادی اسلامی مواد کو پڑھانے میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ پیدا نہیں کی جانی چاہیے۔۔ اپنے کالم میں وہ مزید لکھتے ہیں کہ مغرب کی نقالی میں ہمارا میڈیا اپنی دینی و معاشرتی اقدار کو بھول کر بے حیائی کو پھیلانے کا بڑا ذریعہ بن چکاہے۔ پیمرا جس کی ذمہ داری ہے کہ ٹی وی چینلز کی ہر قسم کی نشریات آئین و قانون کے مطابق ہوں اور اسلامی اقدار کے خلاف نہ ہوں، اُس کیلئے بھی فحاشی و عریانی کے پیمانے بدل چکے ۔ ٹی وی چینلز انٹرٹینمنٹ، اشتہارات، ڈراموں، مارننگ شوز اور مزاح کے نام پر جو مرضی چائیں چلائیں اُنہیں کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرتی بُرائیوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔