تحریر: فاطمہ یاسین
۔۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔۔تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں
آج جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں وہ معاشی نہیں بلکہ اخلاقی پسماندگی کا شکار ہے اس بات کا اندازہ ہم ایسے لگاسکتے ہیں کہ یہاں کل کے بچے آج اپنے بڑوں کو منہ پر ہی برا بھلا کہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔جب ان بچوں کو کسی کام کرنے کا کہا جاتا ہے تو بجائے اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر انکار کرنے کی بجائے وہ کہتے ہیں کہ” ہم نہیں کر رہے آپ خود کر لیں؟ ظاہر ہے کہ جب وہ اپنے اردگرد کے لوگوں سے، دوستوں سے، جو معاشرے میں رہنے والے افراد سے جو کچھ سیکھیں گے وہی بیان کریں گے کہ والدین، سمجھا، سمجھا کر تھک گئے ہیں لیکن اب یہ کل کے بچے کہاں سمجھتے ہیں اپنے سوا کسی اور سے بات۔۔
تو بات ہورہی ہے معاشرے میں گرتی روزبروز اخلاقی پسماندگی کی تو یہاں ایک چیز بتانا چاہوں گی کہ جب تک آپ خود کو ٹھیک نہیں کرتے ہیں، دوسروں سے یہ امید لگانا وہاں فضول ہو جاتا ہے کہ وہ بھی ٹھیک ہوں گے کبھی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اخلاقی اقدار کو نہ بھلایا جائے چائیں آپ بچے ہوں، بڑے ہوں،بوڑھے ہوں۔ کہ جہاں تعلیم و تربیت کا فقدان ہوتا ہے۔ اچھے برے میں تمیز ختم ہوجاتی ہے، چھوٹوں کو بڑوں کی عزت کرنا نہیں سکھایا جاتا، غریب کو امیر سے کم تر سمجھا جاتا ہے،…آج کے معاشرے میں معاشی طور پر نہیں بلکہ اخلاقی طور پر لوگ خود غرض زیادہ ہوگئے جس کی وجہ سے اخلاقی طور پر پسماندگی کا شکار نظر آتے ہیں، جو کہ ان کی عادات و اطوار سے جھلکتا نظر آتا ہے جہاں غربت و افلاس کے ڈیرے ہوں ، ظلم و ستم کی ان گنت داستانیں موجود ہو، امیر کو غریب پر فوقیت دی جاتی ہے ہے مالی پریشانیاں ہوں، وہاں ڈپریشن جیسے ذہنی امراض جنم لیتے ہوئے نظر آتے ہیں، وہاں آپس کا رکھ رکھاؤ فقط خواب بن جاتا ہے۔ وہاں ضرورت، خلوص اور پیار کی جگہ طعنہ زنی، نفرت اور عداوت کرورت جیسی بیماریاں جنم لیتی ہے، وہاں بڑوں کو چھوٹوں کا لحاظ اور چھوٹوں کو بڑوں کی تمیز بھول جاتی ہے، وہاں اپنوں اور غیروں کے دیے گئے زخموں سے تنگ آ کے لوگ خود کشی جیسے سنگین عمل کے مرتکب ٹہر جاتے ہیں، پھر ایسا معاشرے میں سانس لینا دوبھر ہو جاتا ہے اور ایسا معاشرہ عروج کی جگہ زوال کا شکار ہوتا نظر آتا ہے اور معاشی، پسماندگی کی جگہ اخلاقی نااہلی کا شکار نظر آتا ہے ایسے معاشرے میں رہنے والے افراد اخلاقی ناپختگی کی طرف راغب ہوجاتے ہیں اور اخلاقیات کے دائرے سے نکل کر معاشرے کو کو تباہ کر ڈالتے ہیں ہیں اخلاقی کم ظرفی میں مبتلا ہوجاتے ہیں بدتمیزی میں شمار ہونے والے الفاظات کا استعمال عام کر لیتے ہیں مہذب اور اسلامی رویہ اپنانے کی بجائے غیر اخلاقی طرز زندگی اپنا تے ہیں ایسا معاشرہ معاشی طور پر نہیں بلکہ اخلاقی طور پر تباہ و برباد ہو جاتا ہے جہاں لوگ شعور رکھتے ہوئے بھی اپنے معیار سے ہٹ کر غیر اخلاقی رویہ اپناتے ہیں غم و غصے میں اخلاقیات کے دائرے کو بھول جاتے ہیں اس چیز سے جو نقصان دے معاشرے کو۔(فاطمہ یاسین)۔۔