تحریر: علی حسن
مشہور اور پرانی کہاوت ہے کہ پرانی عادتیں مشکل سے ہی چھوٹتی ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کا رویہ یہ ہی بتاتا ہے، اس کے اثرات افسران پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ کسی بھی فرد، خواہ کسی بھی حیثیت کا مالک ہو، کا رویہ اس کی ترجیحات کو تعین کرتا ہے۔ پورا ملک بارش اور سیلاب کے پانی میں ڈوبا ہوا ہے لیکن جب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل پاکستان کے دورے پر آئے تو انہیں یا وڈیو دیکھنے والوں کو یہ ہی تاثر ملا کہ پاکستان میں سب کچھ ” نارمل“ (معمول کے مطابق)ہے۔ ان کے لئے ایک جگہ دورے کے موقع پر سرخ قالین بچھائے گئے۔ کسی وجہ سے جیسا وڈیو میں دیکھایا گیا، وہ ان قالینوں پر نہیں چلے لیکن ہمارے وزیر خارجہ اور دیگر افسران اس پر چلتے ہوئے نظر آئے۔ اس سے قبل جب وہ پاکستان پہنچے تو ان کا خیر مقدم کرنے والوں میں خارجہ امور کی وزیر مملکت حنا ربانی کھر بھی تھیں۔ حنا نمائش کی قائل ہیں لیکن انہوں نے دیکھا ہوگا اور (شائد) سبق بھی لیا ہو کہ اقوام متحدہ جیسی دنیا بھر میں اپنی حیثیت رکھنے والی بہت بڑے حجم کی تنظیم کے سربراہ اپنا سوٹ کیس خود ہی کھینچ کر لا رہے تھے ۔ ان سے ایک یا دو قدم آگے حنا ربانی چل رہی تھیں۔ کیا یہ معیوب بات نہیں تھی کہ آپ کی مصیبت کے وقت آپ کے حالت کا جائزہ لینے کے لئے آنے والے مہمان سے آپ دو قدم آگے چل رہے ہوں۔ ان سارے معاملات کا انحصار رویہوں پر ہوتا ہے۔ پاکستانی حکمران کسی بھی موقع پر یہ ظاہر کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ انہیں سیلاب زدگان کو درپیش صورت حال کی دلی تکلیف ہے۔
حکمرانوں کی ترجیحات کا اندازہ اس خبر سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعلی بلوچستان اپنے نام سے ہونے والے ایک فٹبال ٹورنامنٹ کے لیے کم بیش 6 کروڑ روپے ریلیز کرچکے ہیں۔ اس ٹورنامنٹ میں نہ عوام کو فا ئدہ ہوگا ، نہ کھلاڑیوں کو کسی فائدہ پہنچنے کا امکان ہے البتہ لوگ کہتے ہیں کہ مخصوص بنگلوں میں رہنے والے کچھ امیر لوگوں کو ضرور فائدہ پہنچے گا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت بلوچستان اسمبلی میں کوئی اپوزیشن جماعت نہیں کہ اس حوالے سے اسمبلی میں آواز اٹھائے ۔ اس وقت پوا بلوچستان سیلاب کی وجہ سے ڈوب چکا ہے سیلاب زدگان بے یارو مدد گار کھلے آسمان تلے بھوک اور افلاس میں زندگی گزار رہے ہیں ان لوگوں کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہیں مختلف امراضِ پھیلا رہا ہے علاج کی کوئی سہولت نہیں ہے ۔ متاثرین ان رویوں کی وجہ سے یقیننا اس شر انگیز پرو پغنڈہ سے ضرور متاثر ہوں گے جو حکومت پاکستان کے خلاف مسلسل کیا جاتا ہے۔ لیکن قصور کس کا ہے؟
حکمرانوں اور افسران کے جسم پر موجود لباس بتاتے ہیں کہ ان کے لئے جو کچھ ہو رہا ہے معمول کی بات ہے۔ لوگ چھاتی چھاتی، کمر کمر، گھٹنے گھٹنے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ سڑک کے کنارے ہی ایسی جگہیں ہیں جہاں وہ گھڑی دو گھڑی اپنی کمر سیدھی کر سکتے ہیں لیکن دن میں دھوپ اور رات کو مچھروں کی بہتا ت آنکھ لگانے کا موقع ہی نہیں دیتی ہے۔ دنیا جہان سے جو امدادی سامان آیا ہے اس کی تفصیل این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے تشہیر نہیں کر سکے ہیں۔ ان کی تشہیر اس لئے بھی ضروری ہے کہ لوگوں میں پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکے۔ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ کہاں کہاں کیا کیا پہنچایا گیا ہے۔ حالانکہ سارے ملک کے تمام علاقہ ہی بارش اور سیلا ب سے متاثر ہوئے ہیں لیکن یہ تاثر پھیلایا گیا ہے کہ بلوچستان کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے، سندھ والے کہتے ہیں کہ ان کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے، سوات والے ہوں یا نوشہرہ والے ان کا دعوی ہے کہ وہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ نقصان تو نقصان ہوتا ہے، کم اور زیادہ کی بحث کیوں کی جائے۔یہ بحث لوگوں کو علاوائی بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازش ہو سکتی ہے۔ امدادی سامان کی تقسیم کی ذمہ داری ادا کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ ملنے والے تمام سامان کی اسی طرح تشہیر کریں جیسے صوبائی حکومتیں یا وفاقی حکومت سیلاب سے پیش آنے والے نقصانات کی تشہیر کر رہی ہیں۔
کمشنرکراچی اقبال میمن نے سیلاب متاثرین میں امداد کے نام پر چند بسکٹ کے ساشے پیک اور2 چھوٹی پانی کی بوتلیں تقسیم کی ہیں ۔ سوشل میڈیا صارفین نے وڈیو اور تصاویر سامنے آنے پر سندھ حکومت اور کمنشر کراچی سے عالمی امداد کی بابت معلومات طلب کرلی ، دنیا بھر سے آیا امدادی سامان کہاں گیا ؟ کس کو دیا گیا ؟ سوالات کے انبار لگ گئے ۔ ٹوئٹر پر ہی ایک صارف نے کمشنر کراچی اور سندھ حکومت سے پوچھا کہ وہ امداد کہاں ہے جو اب تک دنیا بھر سے 50 سے زائد طیاروں میں بھر بھر پاکستان پہنچائی جاچکی ہے ؟۔ قمبرشہداد کوٹ کے سیشن جج زاہد حسین میتلو اور سول جج عمران گاڈھی نے نصیرآباد میں پیپلزپارٹی کے ایک رہنما کیرائس مل پر چھاپہ مارکر سیلاب متاثرین کیلئے آئے 500 سے زائد ٹینٹ اورامدادی سامان کا کنٹینر تحویل میں لیکر پیپلزپارٹی کے رہنما حاجی وزیر پھلپھوٹو اور مل مالک صدام دیوان کو گرفتار کر نے کا حکم بھی دیا ۔ ڈسٹرکٹ جج صاحب نے ضلع کی مختلف تحصیلوں میں کارروائیاں کرتے ہوئے سیلاب متاثرین کے لیے آئے امدادی سامان بھی بر آمد کیا تھا۔ شہداد کوٹ میں جوڈیشنل لاک اپ سے سیلاب متاثرین کیلئے آئے 100سے زائد ٹینٹ بھی برآمد کرکے ڈپٹی کمشنر کے حوالے کیے اور احکامات جاری کیے کہ فوری طور پر یہ سیلاب متاثرین میں تقسیم کر دیئے جائیں۔ ذرائع ابلاغ نمائندوں سے گفتگو میں ڈسٹرکٹ جج زاہد حسین میتلو کا کہنا تھا کہ قمبرانتظامیہ سیلاب متاثرین کو سہولیات فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔ قمبر کا ذکر ہی کیا، سندھ ہو یا بلوچستان ، ہر جگہ قمبر والے عناصر پائے جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر خصوصا سندھ کے بارے میں یہ بحث عام ہے کہ حکمران اور ان کے ماتحت سرکاری ملازمین اپنی ذمہ داریاں دل جمعی کے ساتھ ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ سندھ میں وزیر آعلی کی تبدیلی کی خبریں عام ہو ئیں تو صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پے چو ہو نے تردید کی کہ ویزر آعلی تبدیل نہیں ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ آ صف علی زرداری کی ہمشیرہ ہیں ۔ لیکن کوئی کیا کر سکتا ہے جب پیپلز پارٹی کے معمر رہنماء سید قائم علی شاہ کے جو سندھ اسمبلی کے رکن بھی ہیں اور سندھ کے تین بار وزیر آعلی بھی رہ چکے ہیں، صاحبزادے سید اسد علی شاہ نے حکومت سندھ کی کارکردگی پر شدید تنقید کی ہے اور اسے حکمرانی کی ناکامی قرار دیا ہے۔ اسد شاہ چارٹرڈ آکاﺅنٹنٹ ہیں، اور عملی سیاست سے فاصلہ برقرار رکھتے ہیں لیکن بارشوں سے ہونے والے سیلاب میں اسد شاہ کو آبائی ضلع خیر پور جس بری طرح ڈوبا ہے ، جس کے بارے میں اسد کی بہن نفیسہ شاہ جو قومی اسمبلی کی رکن ہیں اور پیپلز پارٹی کی سیکریٹری اطلاعات ہیں، کہہ چکی ہیں کہ ” میرا خیر پور“ ڈوب گیا ہے۔ بات یہ نہیں ہے کہ خیر پور کیوں ڈوبا یا دیگر اضلاع کیوں ڈوبے ، جواب تو یہ تلاش کرنا ہے کہ اس تباہ کن طریقہ سے ڈوبنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ وکالت میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، دلیلیں بہت سے دی جا سکتی ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ ماضی کے مقابلہ میں بارش بہت زیادہ ہوئی ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ نکاسی کے انتظامات ٹھیک نہیں تھے۔ سوال یہ ہے کہ موسمی تبدیلی اور زیادہ بارشیں ہونے کی خبریں تو بہت پہلے سے گردش میں تھیں، پھر ضروری اقدامات وقت سے پہلے کیوں نہیں کئے جاسکے۔ (علی حسن)