سینئر صحافی، کالم نویس اور تجزیہ کار ایاز امیر کا کہنا ہے کہ ۔۔ہمیں کوئی سمجھا تو دے کہ کشمیری شاعراحمدفرہادشاہ کو اٹھانے اورپھر گم کر دینے سے کسی کو کیا حاصل ہوا ؟مصیبتیں اُسے جھیلنی پڑیں لیکن ضمانت تو آخر ہو ہی گئی‘ توپھراس سارے ناٹک کاکیا نتیجہ نکلا؟اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اخترکیانی کو اس بات کی داد دینی پڑتی ہے کہ اس مسئلے میں ایک بھرپور سٹینڈ لیا اورجن کا کبھی ذکر نہیں ہوا کرتا تھا اُن کو نہایت ہی کھلے طریقے سے ہدفِ تنقید ٹھہرایا۔ اسلام آباد کے متعلقہ ایس ایچ او سے کھلی عدالت میں پوچھا کہ فلاں کا 161کا بیان کیوں نہیں لیا گیا؟ اس نوبت تک بات کبھی پہلے نہ پہنچتی تھی لیکن جب اگلوں نے بھی حد کر دی تو ججوں کو سٹینڈ لینا پڑا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ جج صاحبان نے جو سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا اُس کے پیچھے بھی یہی بات تھی کہ مداخلت کی تمام حدیں پار ہو رہی تھیں۔ جج صاحبان نے جو کیا‘ شوقیہ نہیں مجبورہوکرکیا ۔ اور یہ جو سرگودھا کی ایک انسدادِ دہشت گردی عدالت کے ایک جج نے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحب کوجو خط لکھا کہ فلاں طرف سے مداخلت کی کوشش کی گئی اورمیرے ملنے سے انکار پر دھمکیاں دی گئیں اورفیملی تک کو ہراساں کیا گیا‘یہ بھی عقل سے عاری مداخلت کی مثال ہے۔اس پر لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے خوب سٹینڈ لیا اور توہین ِعدالت کا نوٹس دے دیا۔ جو چیف جسٹس صاحب کھل کرکہہ رہے ہیں اُسے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ وہ دن آئے گا کہ اس قسم کی مداخلت ختم ہو جائے گی۔ ایک تقریب میں اُنہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ جج صاحبان اس قسم کی مداخلت قبول نہیں کریں گے اور دلیری سے اپنے فرائض سر انجام دیں گے۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ ۔۔فروری 8کے الیکشنوں تک تو یوں لگ رہا تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے اُس کے سامنے کوئی کھڑا نہیں ہوسکتا۔ لیکن اسلام آباد کی تینوں سیٹوں کی پٹیشنز جسٹس طارق محمود جہانگیری نے سننی شروع کیں توالیکشن کمیشن کو بھی سمجھ آنے لگی کہ یہ کام الٹ نہ ہو جائے۔ اسلام آباد کے ہارے ہوئے امیدوار‘ جن کو جتوا یا گیا‘ ان میں سے دو میرے ساتھ قومی اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں۔حیران ہوں ان پر کہ دنیا جانتی ہے کہ الیکشن میں ان کا حشر کیا ہوا تھا لیکن فارم 47کی ان پر مہربانی ہوئی تو یہ جا اسمبلی میں بیٹھے۔ کچھ تو ندامت یا شرمندگی ہونی چاہیے‘ لیکن یہاں تو ایسی کوئی چیز ہے نہیں۔۔دنیانیوزمیں اپنے تازہ کالم میں ایاز امیر لکھتے ہیں کہ ۔۔مسئلہ صرف الیکشن پٹیشنوں یا عدلیہ کے کام میں مداخلت کا نہیں۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے حالات بڑے خراب ہیں اورحکمران بندوبست ہے کہ بے بس لگ رہا ہے۔ یہ جو قیمتی سوٹو ں میں ملبوس حکمران ہیں کسی کو ان پر کوئی اعتماد ہے؟ اگلوں کی مہربانی سے اسمبلی اور حکومتوں میں بیٹھے ہیں‘ کیا قوم ان کی حقیقت نہیں جانتی؟ اور حقیقت جانتے ہوئے کوئی ان پر بھروسا کرسکتا ہے؟ عوام الناس کا جینا پہلے ہی مشکل تھا‘ نئے ٹیکسوں کی بھرمار سے پوری قوم کا رگڑا لگ جائے گا۔ یہاں جن کی موجیں ہیں اُن کا بال بھی بیکانہیں ہوتا کیونکہ اوپر کے طبقات پہ ہاتھ کبھی لگتا نہیں نہ اس بار ان کی طرف کسی کو دیکھنے کی ہمت ہوئی ہے۔ بس بیچارے عوام ہیں جن کا گلا مزید گھونٹا جا رہا ہے۔وہ صحافی کا کیا خوبصورت سوال تھا وزیر خزانہ سے کہ باتیں آپ بہت کرتے ہیں لیکن عوام کو ہی دبائے جا رہے ہیں اوپر والوں پہ ہاتھ آپ ڈال نہیں سکتے‘ نہ آپ میں اتنی ہمت ہے یہ پوچھنے کی کہ دبئی میں ان کی جائیدادیں کہاں سے آئی ہیں۔ پریس کانفرنس تالیوں سے گونج اُٹھی اور وزیر خزانہ کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔