متنازع پیکا قانون کے خلاف صحافیوں کا احتجاج رنگ لانے لگا، حکومتی صفوں سے بھی پیکا قانون کے خلاف آواز بلند ہوگئی، مسلم لیگ ن کے رہنماؤں عرفان صدیقی اور سعد رفیق نے صحافیوں سے مشاورت کی تجویز دے دی۔متنازع پیکا قانون میں ترمیم کے اشارے پر صحافیوں کے احتجاج کے بعد حکومتی صفوں سے بھی آوازیں اٹھنے لگیں۔مسلم لیگ ن کے سینیٹرعرفان صدیقی نے کہا کہ جب آئین میں 26 ترامیم کرسکتے ہیں تو پیکا قانون کوئی آسمانی صحیفہ نہیں، صحافیوں کو اعتماد میں لینا چاہیئے۔ن لیگ کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے پیکا قانون پر میڈیا تنظیموں سے مشاورت کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیک ہولڈرز سے بات کرکے ضروری ترامیم لائی جائیں، کسی حکومت کے پاس شہریوں پر شکنجہ کسنے کے لامحدود اختیارات نہیں ہونے چاہئیں،ان کا مزید کہنا تھا کہ قوانین کی چھڑی ہمیشہ وقت بدلنے کے ساتھ اسے بنانے والوں کے خلاف استعمال ہوتی ہے۔مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر سیف نے متنازع قانون پر ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو نشانے پر رکھ لیا اور کہا یہ دونوں جماعتیں پیکا اور دیگر کالے قوانین کے نفاذ میں برابر کی ذمہ دار ہیں۔دوسری جانب متنازع پیکا قانون کے خلاف صحافیوں کا احتجاج جاری ہے، ایمرا نے خانیوال پریس کلب تک ریلی نکالی جبکہ دیپالپور میں صحافیوں نے مظاہرہ کیا۔اس کے علاوہ بھلوال اور بورے والا میں بھی صحافی سڑکوں پر نکلے اور متنازع قانون کی واپسی کا مطالبہ کیا۔واضح رہے کہ گزشتہ روز (29 جنوری) صدر مملکت آصف زرداری نے پیکا ترمیمی بل 2025 پر دستخط کردیے تھے، جس کے بعد پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قانون بن گیا ہے۔