تجزیہ: مظہر عباس
وزیراعظم عمران خان نے پریس کی آزادی کے وعدے پر لیا ہوتا اور اگر نہیں تو انہیں اپنی حکومت کی میڈیا پالیسی سے رجوع کرنا چاہئے۔گزشتہ 13؍ماہ سے ان کی میڈیا ٹیم نے صورتحال کو بگاڑا۔۔بسااوقات اس کا نتیجہ ان کے لیے شرمندگی کا باعث بنا، آزادی اظہار کے چیمپئن کی حیثیت سے ان کی ساکھ متاثر ہوئی۔ پیمرا نوٹیفکیشن کی حماقت کے حوالے سے وضاحت کے بعد تحریک انصاف خود منقسم ہوکر سامنے آئی ہے۔
وقت آگیا ہے کہ وزیراعظم دریافت کریں میڈیا امور میں کون مداخلت کررہا ہے اور کیوں؟ حکومت کی میڈیا پالیسی نے کوئی کام نہیں کیا اور ناکام ثابت ہوئی ہے۔۔سونے کی بات ہے اس تمام معاملے میں وزیراعظم خود کہاں کھڑے ہیں۔ یہ پیمرا کا اپنا ایشو ہے، سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری یا فردوس عاشق اعوان نے اسے آگے بڑھایا کہ ٹیلیویژن اینکرز پر پابندیاں لگادی جائیں۔۔جس کا حقیقی مصنف ہنوز نامعلوم ہے جیساکہ پیمرا کی جانب سے گزشتہ شب جاری وضاحت سے ظاہر ہوتا ہے۔ لہٰذا وزیراعظم کی میڈیا ٹیم کہاں ہے، اس کا کردار کیا ہے؟ اور کہاں تک اس نے اب تک کے اپنے دعوئوں اور وعدوں کو نبھایا ہے جو وزیراعظم نے آزاد میڈیا کےحوالے سے کیے تھے۔۔
گزشتہ 13؍ماہ کے دوران حکومت اور پریس کے درمیان تعلقات بگڑے ہی ہیں اب تو نچلی ترین سطح پر آگئے ہیں۔ لگتا ہے عمران خان کو زمینی حقائق سے کماحقہ آگاہ نہیں کیا جاتا۔ وزیراعظم کو یہ سمجھنا ہوگا کہ حکومت اور صحافی حریف ہیں۔ حکمرانوں کو آئینہ دکھانا میڈیا کی ذمہ داری ہے۔۔تاہم غلط رپورپنگ اور بے بنیاد الزامات کی صورت میں نمٹنے کیلئے مناسب میکانزم کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے مخالفت میں اٹھنے والی آواز کو کچلنے کے بجائے اسے مختلف تناظر میں حل کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم اور ان کی میڈیا ٹیم نے دو قابل احترام شخصیات جسٹس ناظر اسلم زاہد اور سابق وزیر اطلاعات جاوید جبار کی جامع سفارشات کا جائزہ لیا ہوتا تو انہیں الجھنوں کے حل میں بڑی مدد ملتی۔اب یہ سفارشات کتابی شکل میں بھی دستیاب ہیں۔ میڈیا کمپلینٹس کمیشن کے حوالے سے پی ایف یو جے کے مسودے پر بھی نظر دوڑائی جاتی۔ گزشتہ حکومتیں اس پر عملدرآمد میں ناکام رہیں۔ حکومت نے ڈی فیمیئن قانون کو موثر کیوں نہیں بنایا۔ جو بے بنیاد الزامات سے نمٹنے کا قانونی ذریعہ ہے۔ یہ بات بھی حیرانی کا باعث رہے کہ وزارت داخلہ کی عجیب و غریب ’’اسٹاپ لسٹ‘‘ کے نتیجے میں سی پی جے کے ایک سینئر عہدیدار کو عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور آنے سے روکا گیا۔
وزیراعظم نے میڈیا کو درپیش چیلنجوں کے حوالے سے صورتحال سے رجوع کیا ہوتا، جب صحافی اور میڈیا کارکنان ملکی میڈیا تاریخ کےانتہائی مشکل دور سے گزررہے ہیں۔ ان کےبیروزگاری اور تنخواہوں سے متعلق گھمبیر مسائل ہیں جو اس حکومت کے دور میں سنگین صورت اختیار کرگئے ہیں۔ آزادی اظہار پر قدغن حکومت کے لیے کبھی مفید ثابت نہیں ہوسکتی۔ وزیراعظم بڑی سرعت کے ساتھ میڈیا میں اپنے دوستوں سے محروم ہوتے جارہعے ہیں۔ وہ جو ان کے دوست ہیں انہیں بھی حمایت کے لیے جواز نہیں مل رہا۔ پیمرا کا حالیہ اقدام مخالفت میں اٹھنے والی آواز کو کچلنے کا بدترین اقدام ہے۔(بشکریہ جنگ)