hukumati ikhtelaaf sahafdion ke dard e sar

حکومتی اختلافات، صحافیوں کے درد ِسر

تحریر: شاہین بارانزئی

ابھی کچھ دن پہلے وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی اور زراعت کے صوبائی وزیر میر علی حسن زہری کے درمیان ہونے والے ’’تو کون؟ تو کون‘‘ کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی  بلوچستان کے درمیان اختلافات پسِ منظر سے نکل کر منظر پر آگئے۔ حکومتیں اور حکومتی پارٹیاں ہوتی ہی ایسی ہیں،وہ ہر درو میں’’ ہٹ پرے، آجا میرابالما‘‘ کے ورد میں لگی رہتی ہیں۔ حیرت اس پر ہے اقوالِ زرین بنانے والوں نے دنیا کے بارے میں تو قول بنایا ہے کہ ’’دنیا ایک مردہ جسم ہے اور اس کی تلاش کرنے والے کتے ہیں‘‘ مگر حکومت یعنی اقتدار اور اقتدار کے متلاشیوں کے لیے ابھی تک کوئی قول تراشا نہیں ہے۔ نہ کئی سیاسی اصطلاح سازوں نے اس کے لیے اصطلاح سازی کی ہے۔

چلو یہ تو حکومت اور حکومتی معاملہ ہے لیکن یہ معاملہ سردردِ سر بن گیا ہے بے چارے صحافیوں کے لیے۔ جن صحافیوں کا پسندیدہ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی ہے وہ خبر جاری کرتے ہیں کہ صوبائی وزیر کا تقاضا ہے کہ ان کے من پسند افسر ان کی ٹرانسفر ، پوسٹنگ اور تعیناتی ان کی مرضی سے کی جائے ۔ وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ یہ مخلوط حکومت ہے۔ سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ پھرصحافی بے چارے مزید خبریں چلائی جاتی ہیں کہ پیپلز پارٹی کے وزرائ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔

جن صحافیوں کی توقعات صوبائی وزیر میر علی حسن زہری سے وابستہ ہےں وہ لکھتے ہیں ، پیپلز پارٹی میں اختلافات ۔ پیپلز پارٹی کے وزرائ صوبائی وزیر کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وزرائ کا موقف ہے وزیر اعلیٰ نے ہمیں کوئی اہمیت نہیں دیتا ہے۔ ہم عوام سے ووٹ لیے ہیں عوام کو جوابدہ ہیں، وزیر اعلیٰ کا رویہ نامناسب ہے، وغیرہ وغیرہ۔

 حکومتی ترجمان شاہد رند خود ایک سینیئر صحافی ہے ، موصوف نے باقاعدہ پریس بریفنگ دی ۔ گوکہ انہوں نے حکومتی اختلافات کو تو مسترد کردیا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی اور صوبائی وزیر میر علی حسن زہری یا بلوچستان حکومت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مزید دلچسپ بات یہ صحافی بے چارے تو اختلافات کی بات کرتے تھے، جناب ترجمان نے تو مزید قلعیاں کھولتے گئے ، انہوں نے اختلافات ، وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزیر کے درمیان ہونے والے بدنظمگی کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ حکومت میں اختلافات ہیں، وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی اور زراعت کے صوبائی وزیر میر علی حسن زہری کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ان کے درمیان کوئی تلخ کلامی ،کوئی ہاتھا پائی نہیں ہوئی ہے۔

حکومتی ترجمان کی پریس کانفرنس سے پہلے تو ہم صرف اتنا جان چکے تھے موصوفین کے درمیان کوئی بدنظمی ہوئی ہے۔ اس کے بعد ظاہر ہے ہر کوئی اپنا اپنا پلڑا بھاری بنانے کے لیے لابنگ کی ہوگی ۔ مگر ترجمان کی پریس کانفرنس سے ہی یہ معلومات ہوا کہ وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزیر کے درمیان اختلافات اتنے کشیدہ ہوچکے  ہیں کہ معاملہ تلخ کلامی اور ہاتھاپائی تک جا پہنچا ہے۔

 تاہم صحافی برادری اس معاملے کو اپنا دردِ سر نہ بنائے تو اچھا ہے ، کیونکہ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی ہو یا صوبائی وزیر میر علی حسن زہری ہو ، وہ دونوں لاوارث نہیں ہیں۔ میر علی حسن زہری صدر آصف علی زہری کے کا بندہ ہے تو میر سرفراز بگٹی کمپنی مالکان کا بندہ ہے۔ دونوں کو بڑی بڑی طاقتوں کی آشیرباد حاصل ہے۔ ہم لوگ خوامخواہ اپنا اپنا دماغ کھپا رہے ہیں۔( شاہین بارانزئی)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں