تحریر: عبدالقادر حسن
ہم من حیث القوم بڑے بے صبرے ہیں اور سب کچھ جلد از جلد پا لینے کے لیے درمیانی راستے کی تلاش میں رہتے ہیں تا کہ اپنی خواہشات کواس راستے کے ذریعے جلد از جلد پورا کیا جا سکے، اس جلد بازی میں ہم یہ نہیں دیکھتے کہ اس میں ہمارا اپنا یا ملک کا کیا نقصان ہو رہا ہے لیکن ہمارا مقصد چونکہ اپنے مخصوص عزائم ہوتے ہیں اس لیے ہم کسی نفع نقصان کی پرواہ کیے بغیر اپنا مطلب نکالنے کی فکر میں رہتے ہیں ۔ اس جلد بازی نے ہمیں کئی نقصان بھی پہنچائے لیکن ہم اس کے باوجود جلد بازی سے بازنہیں آتے ۔پہلے بھی عرض کیا تھا کہ نئی حکومت کے پاس جادو کی کوئی چھڑی نہیں ہو گی جو کہ رات کو دن میں تبدیل کردے گی بلکہ برسوں کے بگاڑ کو درست کرنے میں برسوں درکار ہوتے ہیں لیکن ہمارے ناتجربہ کار حکمرانوں کا دعویٰ برسوں کا نہیں بلکہ حکومت کے پہلے سو دنوں میں حکومتی معاملات میں درستگی لانے کا ہے اور پہلے سو دنوںمیں اس بات کا تعین کرنا ہے کہ حکومت کے معاملات کس سمت میں چلائے جانے ہیں تا کہ اس کے مطابق کام کو آگے بڑھایا جا سکے ۔اس کے ساتھ ساتھ پہلے سو دنوں میں واضح تبدیلی کے اشارے بھی دیے گئے تھے لیکن ابتداء میں ہی میڈیا نے حکومت کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے جو کہ ایک نئی حکومت اور ناتجربہ کار حکمرانوں کے ساتھ جلد بازی میں کی جانے والی زیادتی ہے۔ حکومت کے و عدے کے مطابق پہلے سودنوں کا بڑے صبر کے ساتھ انتظار کرنا چاہیے اور اس کے بعد میڈیا کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ حکومت کو یہ یاد دلائے کہ اس نے سو دنوں میں کون سے کام کرنے کے وعدے کیے تھے اور کیا کر گزری ہے۔یہ صورتحال ایسے ہی چلتی رہے گی، نیوز چینلز کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ ہر ایک چینل تک اپنا موقف موثر طریقے سے پہنچانا غیر موثر ہو چکا ہے۔ حکومت کا اپنا ایجنڈا ہے اور صحافیوں کا اپنا ہے اور نئی حکومت ابھی اس صحافتی دامن کو پکڑنے سے قاصر ہے ۔
صحافیوں اور صحافتی اداروں پر پابندیاں اور ان کی سرزنش کرنے کے لیے گزشتہ حکومتوں کی جانب سے بنائے گئے دو اداروں کو موجودہ حکومت نے بیک جنبش قلم ختم کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں اور کوئی ایک نیا ادارہ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے حالانکہ اگر نیا ادارہ ہی بنانا ہے تو پہلے والوں کو برقرار رکھنے میں کیا قباحت تھی۔حکومت ان اداروں میں اپنی مرضی کا سربراہ لگا سکتی تھی،بے شک وہ میڈیا کے حلقوں سے نہ بھی ہو کیونکہ گزشتہ حکومت میں ہمارے ایک ساتھی کو پیمرا کا سربراہ لگا دیا گیا جن کے خلاف میڈیا میں کافی شکایتیں گردش کرتی رہیں نئی حکومت کسی عقلمند انفارمیشن افسر کو یہ ذمے داری سونپ سکتی ہے۔
انفارمیشن والوں کی عمر صحافیوں کے ساتھ گزر رہی ہوتی ہے، اس لیے وہ اخبار نویسوں کو کسی بھی دوسرے شخص سے بہتر جانتے ہیں اور ان کو معاملات سنبھالنے کا ہنر بھی آتا ہے۔ یہ فیصلہ تو حکومت کو کرنا ہے کس عہدے کے لیے کون مناسب ہو گا ہمارا کام تو اخبار کے صفحے کالے کرنے کا ہے جو ہم گزشتہ کئی برسوں سے ہر حکمران کے دور میں کرتے رہے ہیں اور جب تک قلم میں زندگی کی ہلکی سی بھی رمق باقی رہے گی کسی حق بات کے لیے صحافی کا قلم بھی چلتا رہے گا۔ حکومت اپنے کام کرتی رہے گی ہم اپنا فرض نبھاتے رہیں گے۔
حکومت کے غلط کاموں پر تنقید پہلے بھی ہوتی ہے اور اب بھی جاری ہے ۔ اگر حکمران حکومت چلانے کے لیے اچھی ٹیم کا انتخاب نہیں کر سکتے تو پھراخبار نویسوں سے گلہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔حکومتی عہدیدار اور وزراء جو صرف اپنی سیاسی حریفوں پر ماضی میں تنقید کے نشتر چلاتے رہے اب جب وہ حکمران بن بیٹھے ہیں تو ان کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہو گا کیونکہ حکمران اور اس کی اپوزیشن میں فرق ہوتا ہے جس کا علم شاید ہمارے نئے وزراء کو نہیں ہے وہ ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکنے کی کوشش کر رہے جس میں ان کو ناکامی ہو رہی ہے ۔حکومتی لاٹھیاں اور ہوتی ہیں اور بطوراپوزیشن تنقید کرنے کے لیے لاٹھیاں مختلف استعمال کی جاتی ہیں ۔ (بشکریہ ایکسپریس)
خاتون ماڈل کی خودکشی، وجہ ہراسمنٹ بنی؟؟
پاکستانی ماڈل انعم تنولی کی مرنے سے قبل کی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں وہ کہتی ہوئی نظرآرہی ہیں کہ وہ کس حد تک پریشانی اورڈپریشن میں مبتلا ہیں۔چند روز قبل 26 سالہ پاکستانی ماڈل انعم تنولی کی پھندا لگی لاش ان کے گھر سے برآمد ہوئی تھی، انعم تنولی کی موت کی وجہ تو تاحال سامنے نہ آسکی تاہم ان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ انہیں بہت زیادہ پریشان اورہراساں کیا جارہا ہے۔ویڈیو میں انعم تنولی کہتی ہوئی نظر آرہی ہیں کہ’’ بُلی‘‘ کرنا یعنی کسی کو اس حد تک پریشان کرنا کہ وہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوجائے بہت بری چیز ہے۔ انہوں نے کہا لوگوں کی جانب سے پریشان کیا جانا اندر سے دکھی کردیتا ہے۔انعم تنولی نے مزید کہاکسی کے حوصلے کو پست نہیں کرنا چاہیئے۔واضح رہے کہ انعم تنولی 2 ماہ قبل اٹلی سے پاکستان آئی تھیں اور انہوں نے فیشن ڈیزائننگ کا کورس بھی کررکھا تھا، انعم تنولی کی موت کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ انہیں انٹرنیٹ کے ذریعے اور سوشل میڈیا پر اس حد تک پریشان کیا گیا کہ وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ تاہم یہ وجہ سامنے نہیں آسکی ہے کہ انہیں کون اور کس حوالے سے پریشان کررہا تھا۔