حکومت نے اخباری مالکان کا بڑا فراڈ پکڑ لیا۔۔ پہلے یومیہ 2کروڑ اخبارات شائع ہونے کی بنیاد پر اشتہارات جاری ہورہے تھے جب اس کو بھی باریک بینی سے چیک کیا تو نتیجہ یہ سامنے آیا کہ 9لاکھ 70ہزار اشاعت ہے،غلط سرکولیشن کےاعداد و شمار دیکر اشتہارات لئے جارہے تھے۔۔یہ انکشاف وزیراعظم کی معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کیا۔۔۔انہوں نے 2020کو صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی آسانیوں کا سال قرار دیتے ہوئے ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی نوکریوں کے تحفظ ، ہیلتھ انشورنس اور ای او بی آئی سے رجسٹریشن کے لئے “جرنلسٹ پروٹیکشن قانون”مشاورتی عمل مکمل ہونے کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا، وزیراعظم عمران خان کا ویژن اور واضح ہدایات ہیں کہ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو تنخواہوں کی ادائیگی ،نوکریوں کے تحفظ اور صحت کی سہولیات فراہمی کا معاملہ مستقل بنیادوں پر جلد حل کیا جائے ،تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا عمل جاری ہے ،یہاں سے آنے والی تجاویز کو سن کے جامع حکمت عملی سامنے لائی جائے گی، سرکاری اشتہارات کی فراہمی کے عمل کو شفاف بنانے کے لئے پی آئی ڈی کو ڈیجیٹلائزکر رہے ہیں ، اشاعت اور سرکولیشن کی اصل تعداد کے ساتھ ہی اشتہارات کی تقسیم کو یقینی بنایاجائے گا۔سرکولیشن کی بنیاد پر رجسٹرڈ اخبارات 4 ہزار 200 تھے جن کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اب ان کی تعداد 1680پر آگئی وہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اطلاعات کو صحافیوں کے تحفظ ،تنخواہوں اور بقایا جات کی ادائیگی کے معاملات پر بریفنگ دے رہی تھیں،اجلاس کی صدارت فیصل جاوید نے کی جبکہ چیئرمین پیمرا محمد سلیم بیگ، پی آئی او رائے طاہر حسن ،ایم ڈی سرکاری ٹی وی کے علاوہ متعلقہ اداروں کے حکام بھی موجود تھے۔فردوس عاشق اعوان نے کمیٹی کو بتایا کہ وزارت اطلاعات و نشریات کی بھی یہ پہلی ترجیح ہے کہ میڈیا ورکرز اور صحافیوں کے ساتھ کھڑے ہوں اور ادائیگیوں کا تنازعہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوسکے، اس مسئلے کے مستقل حل کے لئے آجر اور اجیر دونوں کو سن کر ضرورت کے مطابق قانون سازی کی جائے اس کے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ۔ جرنلسٹ پروٹیکشن قانون کا مسودہ تیار کیا ہے ،یہ مسودہ کمیٹی کے ارکان کو بھی دیں گے تا کہ ان کی ان پٹ بھی شامل ہوسکے ۔ انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ میڈیا ہاؤسز میں تنخواہوں اور بقایا جات کی ادائیگی کے ایشوز اس لئے بنے ہیں کہ میڈیا ہاؤسز میں خدمات حاصل کرنے کے لئے تحریری معاہدے کے بجائے سادہ کاغذ پر دستخط کرائے جاتے ہیں اسی وجہ سے کسی بھی جگہ ان سے پوچھ نہیں ہوسکتی۔ پی آئی ڈی کی ڈیجیٹلائزیشن کی جارہی ہے، ایک ڈیش بورڈ بنارہے ہیں جس پر ہر اخبار کی اشاعت اور سرکولیشن جو حقیقت میں ہوگی وہ نظر آرہی ہوگی اور اسی کے مطابق مستقبل میں اشتہارات کی تقسیم ہوگی ،سرکولیشن کی بنیاد پر رجسٹرڈ اخبارات 4 ہزار 200 تھے جن کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اب ان کی تعداد 1680پر آگئی ہے ابھی بھی پڑتال کا عمل جاری ہے ، پہلے یومیہ 2کروڑ اخبارات شائع ہونے کی بنیاد پر اشتہارات جاری ہورہے تھے جب اس کو بھی باریک بینی سے چیک کیا تو نتیجہ یہ سامنے آیا کہ 9لاکھ 70ہزار اشاعت ہے،غلط سرکولیشن اعداد و شمار دیکر اشتہارات لئے جارہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں کے مسائل کا حل ایک قومی کاز ہے ،صحافی سب کی خبر لیتے ہیں لیکن ان کی خبر گیری کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
حکومت نے اخبار مالکان کا بڑا فراڈ پکڑ لیا۔۔
Facebook Comments