وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک ایسا معاملہ اُٹھا دیا ہے جس کا اثر شہباز حکومت پر پڑ سکتا ہے اور اگر پاکستان کی تاریخ کو دیکھا جائے توحکومت کی چھٹی بھی ہو سکتی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ خواجہ آصف صاحب کب جرنیلوں کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہی کیلئے قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کرتے ہیں۔سینئر صحافی و تجزیہ کار انصار عباسی نے”خدشات ” کا اظہار کر دیا ۔جنگ میں تازہ کالم لکھتے ہوئے انصار عباسی کہتےہیں کہ ۔۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے اعلان کیا ہے کہ وہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو پارلیمنٹ کے سامنے طلب کرنے اور اُن کا احتساب کرنے کیلئے قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کریں گے۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں اُنہوں نے کہا یہی نہیں بلکہ ان جرنیلوں سے نواز شریف کی حکومت کے خاتمے اور دوسرے معاملات پر بھی جواب طلبی ہونی چاہیے۔ اُنہوں نے کہا یہ (جرنیل) ہوتے کون ہیں یہ سب کچھ کرنے والے۔ اس پر ٹی وی ٹاک شو اینکر نے وزیر دفاع سے پوچھا کہ ایسا نہ ہو کہ پارلیمنٹ کے سامنے جرنیلوں کو جواب طلبی کیلئے بلانے پر آپ کی حکومت کو ایک بار پھر گھر جانا پڑ جائے، اس پر خواجہ آصف نے کہا کہ ہم پہلے بھی گھر چلے گئے تھے گھر کا راستہ پتا ہے پھرچلے جائیں گے۔ اب دیکھتے ہیں کہ خواجہ آصف صاحب کب جرنیلوں کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہی کیلئے قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کرتے ہیں۔ انصار عباسی نے مزید لکھا کہ اس بارے میں علم نہیں کہ کیا یہ خواجہ صاحب کا اپنا ذاتی فیصلہ ہے یا شہباز حکومت کی پالیسی؟ وجہ جو بھی ہے خواجہ صاحب نے ایک ایسا معاملہ اُٹھا دیا ہے جس کا اثر شہباز حکومت پر پڑ سکتا ہے اور اگر پاکستان کی تاریخ کو دیکھا جائے اور جیسا کہ ٹی وی اینکر نے کہا بھی کہ ایسا کرنے پر حکومت کی چھٹی بھی ہو سکتی ہے۔ بہتر ہوتا پہلے انتخابی تنازعات کی شکار شہباز حکومت اپنے پاؤں جما لیتی، معیشت کے اہم ترین چیلنج سے نبٹ لیتی، کچھ سیاسی اور معاشی استحکام حاصل کر لیتی تو پھر جرنیلوں کا احتساب کرنے کا کام شروع کرتی۔ آخر میں انصار عباسی نے لکھا کہ لندن سے واپسی سے پہلے میاں نواز شریف بھی جرنیلوں کے احتساب کی بات کرتے تھے لیکن وہ شہباز شریف کے سمجھانے پر خاموش ہو گئے۔ عمومی طور پر یہ تاثر ہے کہ نواز شریف کی واپسی ایک مبینہ ڈیل کا نتیجہ تھی، الیکشن سے قبل اور الیکشن ڈے کو جو کچھ ہوااُس پر بھی بہت باتیں ہو رہی ہیں۔ وزیر دفاع کایہ کہنا کہ ہمیں گھر جانا پڑا تو ہم گھر چلے جائیں گے ہمیں گھر کا رستہ پتا ہے، اُس سنجیدگی کو ظاہر نہیں کرتا جس کی شہباز حکومت سے توقع ہے۔