hukumat arshad sharif ke khilaaf party kyu banrhi ha

حکومت ارشد شریف کے خلاف پارٹی کیوں بن رہی ہے؟ آئینی بینچ۔۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس میں وفاقی حکومت کی ایک ماہ مہلت کی استدعا منظور کرلی جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے کینیا کے ساتھ باہمی قانونی امداد کے معاہدے کی توثیق کے لیے وقت مانگنے پر سپریم کورٹ نے پیشرفت میں سست روی پر سخت سوالات اٹھا دیے، بینچ نے مہلت کی استدعا پر تشویش اور حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 3 ماہ بعد بھی وقت مانگا جارہا ہے، اتناعرصہ گزر گیا پھر بھی ارشد شریف کیس میں اتنی تاخیرکیوں ہوئی، حکومت کو تو ارشد شریف کیس میں پتہ ہی کچھ نہیں۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی آئینی بینچ نے ارشد شریف قتل سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بینچ سے ایک ماہ کی مہلت کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ ایک ماہ میں صدر سے معاہدے کی توثیق کروا لی جائے گی، کینیا کے ساتھ باہمی قانونی امداد کا معاہدہ ہوچکا ہے اور معاہدے کے مطابق اس کی توثیق کا عمل جاری ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے مہلت کی استدعا پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 10 دسمبر کو معاہدہ ہوا آج تک توثیق کیوں نہیں ہوسکی؟جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آپ سے روزانہ کی بنیاد پر پیشرفت رپورٹ مانگیں؟ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ تین ماہ بعد بھی وقت مانگا جا رہا ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ بے رحمی کے ساتھ پاکستان کے ایک جانے پہنچانے صحافی کو قتل کیا گیا، حکومت پاکستان کینیا میں صحافی کی فیملی کو کیوں سپورٹ نہیں کر رہی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ وفاق کینیا میں جاکر فریق بن سکتی ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پاکستان کا کینیا کے ساتھ باہمی تعاون کی یادداشت کا معاہدہ ہوگیا، معاہدے پر عمل درآمد کے لیے اور کچھ ضروری کارروائی کے لیے ایک مہینے کا وقت درکار ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد آپ ابھی بھی وقت مانگ رہے ہیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے 27 فروری کو وزارت داخلہ کو کارروائی آگے بڑھانے کے لیے لکھا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ دسمبر میں آخری سماعت کے بعد آپ نے فروری میں ہی کیوں وزارت داخلہ کو لکھا۔جوائنٹ سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ ہم نے وزارت خارجہ کو باہمی قانونی تعاون کے لیے نوٹ لکھا ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ اب سے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی پیش رفت رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہم جے آئی ٹیز کے حق میں نہیں کیونکہ اس کا فائدہ نہیں ہوتا، ہماری تشویش یہ ہے کہ اتنا عرصہ گزر کیا پھر بھی ارشد شریف کیس میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ صدر کو سمری کس نے بھیجنی ہے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزارت داخلہ کابینہ کی منظوری کے بعد صدر کو سمری ارسال کرے گی اور وزارت داخلہ سے میرا رابطہ نہیں ہو پا رہا، اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ وزارت داخلہ کے افسر تو آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔وزارت داخلہ کے جوائنٹ سیکرٹری عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ 27 فروری کو کابینہ منظوری کے بعد وزارت خارجہ کو نوٹ بھجوا دیا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ معاہدے کی منظوری صدر نے دینی ہے تو کیا صدر مسترد بھی کر سکتے ہیں؟ جس پر قانونی مشیر وزارت خارجہ نے کہا کہ اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔ارشد شریف کی والدہ کے وکیل نے بتایا کہ حکومت نے معاملے پرفیکٹ فائنڈنگ کروائی تھی، فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کی کاپی فراہم کی جائے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میڈیا میں آنے سے پہلے ہی سارا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ارشد شریف کی اہلیہ کے وکیل نے کہا کہ کینیا کے ساتھ باہمی قانونی تعاون کی ضرورت نہیں، اقوام متحدہ کے معاہدوں کے تحت کاروائی ہوسکتی ہے۔جسٹس محمد علی مظہر کئی سالوں سے ازخود نوٹس زیرالتوا ہے۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ جب ہمارے لوگ وہاں تحقیق کرنے گئے توانہوں نے کسی کا انٹرویونہیں کرنے دیا، جب کینیا کی حکومت تعاون نہیں کررہی تو کیا کریں؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پاکستان میں جے آئی ٹی نے 70 سے زیادہ لوگوں کے انٹرویوز کیے، جس پر جسٹس محمد علی مظہرنے کہاکہ اصل سوال یہ ہے کہ حکومت اس کیس کی تمام کاروائی مکمل کب کرے گی؟جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ حکومت پاکستان اپنے شہری کے خلاف پارٹی کیوں بن رہی ہے؟ حکومت کو تو ارشد شریف کے اہلخانہ کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیئے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کینیا کی عدالت میں حکومت فریق بنے گی تو یہ بہت لمبا معاملہ ہو جائے گا۔جسٹس حسن اظہررضوی نے کہا کہ ارشد شریف ایک نامورصحافی اور سب سے پہلے پاکستان کے شہری تھے، ایک مشہورصحافی کے بہیمانہ قتل پرحکومت کواہلخانہ کے پیچھے کھڑا توہونا چاہیئے، حکومت پاکستان کو تو ارشد شریف کیس میں پتہ ہی کچھ نہیں۔بعدازاں عدالت نے وفاقی حکومت کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں