تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
تنقید کس کو پسند ہے؟ کسی کو بھی نہیں۔ مجھے بھی پسند نہیں ہے۔ ہاں دوسروں پر تنقید کرنا یا ان میں کیڑے نکالنا آپ کی طرح مجھے بھی اچھا لگتا ہے۔ میڈیا میں رہ کر آپ تنقید کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں کیونکہ میڈیا کا بنیادی کام ہی تنقید ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ میڈیا کا کام حکومتوں یا بڑے لوگوں کی تعریفیں کرنا اور ان کے اچھے اچھے کاموں کی تشہیر کرنا ہے وہ غلطی پر ہیں۔ اس لیے ممکن ہی نہیں کہ میڈیا حکومتوں اور حکمرانوں کے زیرعتاب نہ آئے۔ جب امریکہ میں نکسن حکومت کے خلاف پنٹاگون پیپرز کی سٹوری چھپنے لگی تھی تو اخبار واشگٹن پوسٹ کی مالک کو دھمکیاں دی گئی تھیں۔ اس سکینڈل میں چار امریکی صدور کا نام آرہا تھا۔ اخبار کی خاتوں مالک ڈٹ گئیں کہ جیل میں ڈالنا ہے ڈال دو‘ سٹوری ضرور چھپے گی۔ اسے نیشنل سکیورٹی کے نام پر دھمکایا گیا جو ہر حکومت کا اپنے ناقدین کو چپ کرانے کا آخری لیکن کامیاب حربہ ہوتا ہے۔ وہ ایڈیٹر جیل جانے کو تیار ہوگئی اور اس کی پروا نہ کی کہ وائٹ ہاؤس سے براہ راست انہیں فون کرکے تھریٹ کیا گیا ہے۔
اخبارات یا میڈیا گروپس کی ساکھ ایک رات میں نہیں بنتی‘ ہاں ایک رات میں دھڑام سے گر ضرور سکتی ہے۔ بی بی سی کی اگر ساکھ بنائی گئی تو اس پر خاصی محنت لگی۔ برٹش سیریز ”دی کرائون‘‘ دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ شاہی خاندان کو بھی میڈیا معاف نہیں کرتا بلکہ شاید ان پر زیادہ کڑی نظر رکھتا ہے۔ یہ شوق ہمارے عوام ہی کا ہے کہ لاڈلے حکمرانوں کو کچھ نہ کہا جائے۔ پاکستان میں میڈیا کے حالات کبھی اچھے نہیں رہے۔ اب تک میں چھ بڑے اداروں میں کام کرچکا ہوں۔ ہر جگہ ایک ہی بات سنی کہ وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے کچھ لاڈلے اور چند طاقتور اداروں کے سربراہوں کے بارے کچھ نہیں کہنا‘باقی خیر ہے۔ سیاستدانوں نے بھی اس کا حل نکالا کہ اپنے اپنے کارکن ہر میڈیا گروپ میں بھرتی کرا دیے۔ اب دن رات وہ سیاسی کارکن جنہیں صحافی کا درجہ مل چکا ہے‘ اس لیڈر اور حکومت کے گن گاتے ہیں۔ جو نہیں گاتے وہ نوکری سے جاتے ہیں اور چینل اپنا بزنس کھو بیٹھتا ہے۔
جب بھی اسلام آباد اور پنڈی کے تعلقات ایک پیج پر آجاتے ہیں تو سمجھ لیں میڈیا‘ اپوزیشن اور جوڈیشری کی خیر نہیں ۔ پاکستانی میڈیا کی جان اس وقت تک بخشی رہے گی جب اسلام آباد اور پنڈی ایک پیج پر نہ ہوں۔ میڈیا کو بڑی فکر ہوتی ہے کہ سیاسی اور عسکری ادارے ایک پیج پر ہوں مگر اس ایک پیج کا سب سے بڑا نقصان بھی میڈیا ہی کو ہوتا ہے۔ نوکریوں سے ہاتھ دھونا اور ہزاروں کی بیروزگاری الگ۔
پاکستانی میڈیا کیلئے موجودہ حکومت کے سال بہت مشکل رہے ہیں۔ ایک تو آتے ہی سوشل میڈیا ٹیموں کو کام پر لگا دیا گیا کہ حکومت مخالف صحافی ہوں یا اینکر انہیں دن رات گالیاں دینی ہیں‘ پھر میڈیا ہاؤسز کے مالکان کے برے دن شروع ہوگئے۔ جتنا بحران اس دور میں میڈیا نے دیکھا کم ہی پہلے دیکھا ہوگا۔ پوری حکومت ایک ہی کام پر لگی ہوئی تھی اور پارٹی ورکرز کو بھی لگایا ہوا تھاکہ میڈیا کی ساکھ کو خراب کرنا ہے تاکہ یہ حکومت پر تنقید کرے یا اس کے سکینڈل بریک کرے تو عوام اس پر اعتبار نہ کریں۔ ایک ہی نعرہ سننے کو ملتا تھا کہ میڈیا کا مکو ٹھپ دو۔
یوں پوری دنیا میں یہ خبریں چھپنے لگیں کہ پاکستان کا میڈیا آزاد نہیں ہے۔ طاقتور حلقے جو چاہتے ہیں وہی چھپتا اور ٹی وی سکرین پر نظر آتا ہے۔ یہ شاید پہلی دفعہ ہوا کہ پوری دنیا کے پریس میں یہ خبریں چھپیں لیکن حکومت شرمندہ ہونے اور کچھ اقدامات کرنے کے بجائے الٹا اس کریڈٹ پر خوش ہونا شروع ہوگئی۔ کسی کو خیال نہ آیاکہ میڈیا کو خود ہی حکومت بدنام کر ے گی تو کل کلاں ریاست کو اپنے مفاد کیلئے اس کی ضرورت پڑگئی تو کیا کریں گے؟ پی ٹی وی‘ جس کیلئے اس قوم سے بجلی کے بلوں کے ذریعے آٹھ ارب روپے اکٹھے کئے جاتے ہیں‘ اس قابل نہیں ہوسکا کہ اپنی ساکھ بناپائے اور مشکل وقت میں ریاست کے کام آسکے۔
اب جب میڈیا کا مکو ٹھپا جاچکا ہے تو اچانک ریاستی ذمہ داران کو ”آزاد پاکستانی میڈیا‘‘ کی ضرورت پڑگئی ہے۔ افغانستان میں بدلتے حالات کی وجہ سے افغانستان کے اندر پاکستان کے خلاف میڈیا اور سوشل میڈیا پر خطرناک ٹرینڈ چلنا شروع ہوگئے۔ بھارتی میڈیا ویسے ہی موقع کی تلاش میں تھا‘ اس نے کام اُٹھا دیا اور پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلا دیے کہ پاکستان پر معاشی پابندیاں لگائی جائیں کیونکہ جو کچھ افغانستان میں ہورہا ہے اس کی ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔ اچانک سب کو احساس ہوا کہ انہیں اب افغانستان اور انڈیا کے میڈیا کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کے ”آزاد میڈیا‘‘ کی ضرورت ہے۔ بات اب حکومتی وزیروں‘ مشیروں اور ان کی سوشل میڈیا ٹیموں کے بس سے باہر ہوگئی ہے۔ اب ان وزیروں یا سفیروں یا مشیروں کے ٹویٹس یا دھماکہ خیز بیانات پر کوئی یقین نہیں کرتا۔ اب پاکستان کا ”آزاد میڈیا‘‘ ہی افغان‘ بھارتی اور عالمی میڈیا کے تابڑتوڑ حملوں کا جواب دے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس ملک میں کب کسی نے کوئی آزاد میڈیا رہنے دیاکہ وہ ڈٹ کر پاکستان کا مقدمہ لڑسکے یا جس کی بات پر دنیا یقین کرے۔ آپ تو ان تین برسوں میں اسی میڈیا کا مکو ٹھپنے پر لگے رہے۔ اب اچانک اس کی ضرورت پڑگئی ہے توملک کے جید صحافیوں کو کہا گیاکہ وہ ہمت کریں اور ان کا بیانیہ چلانے میں مدد دیں۔ مگر صحافی اور اینکرز مل کر یہ بیڑا اٹھا بھی لیں تو ان کی سننی کس نے ہے اور کس نے ان پر اعتبار کرنا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہی سچ ہے۔ پہلے ان اداروں اور حکمرانوں نے ہماری ساکھ خراب کی اور ڈھنڈورا پیٹا گیاکہ پاکستانی میڈیا ”کرپٹ‘ غداراور بکائو‘‘ ہے تو اب اس کی بات کون سنے گا۔ سب کہیں گے کہ میڈیا پھر بک گیا ہے اور دبائو یا اپنی قیمت وصول کر کے نیا بیانیہ بیچ رہا ہے۔ کوئی بھی سمجھ دار ریاست یا حکمران اگر لانگ ٹرم میں اپنے میڈیا کو کبھی بہت ضروری نیشنل سکیورٹی کے لیے استعمال کرنا بھی چاہتا ہے تو بڑی سمجھداری سے پہلے اس کی آزادی کو یقینی بناتا ہے۔ اس کے نیوٹرل ہونے کا تصور عوام یا اقوام میں پیدا کیا جاتا ہے۔ اس دوران وہ میڈیا اپنی حکومتوں اور طاقتور طبقات کو بھی سینگوں پر اٹھائے رکھتا ہے لیکن وہ سب برداشت کیا جاتا ہے تاکہ یہ تصور نہ ہوکہ میڈیا پر ریاست کے طاقتور ستون قابض ہیں اور وہی اسے ڈکٹیٹ کرتے ہیں۔ جب ساکھ بن جاتی ہے تو پھر کبھی کبھار ریاست اپنے مفادات کیلئے میڈیا کو استعمال بھی کرتی ہے اور کسی کو شک نہیں ہوتا۔ اگر ہمارے اداروں کا خیال ہے کہ پاکستان کا موجودہ میڈیا اس وقت پاکستان کے خلاف جاری بھارتی اور افغان مہم کا منہ توڑ جواب دے سکتا ہے تو غالباً وہ غلطی پر ہیں۔ زیادہ سے زیادہ وہی پرانا بیانیہ پاکستان کے اندر دہرایا جاتا رہے گا‘ سرحد پار‘ یورپ‘ کینیڈا اور امریکہ تک کسی نے اس کی نہیں سننی۔
پورے ملک میں ایک بھی کام کا انگریزی چینل نہیں۔ دو انگریزی چینلز پرائیوئٹ سیکٹر میں کھولے گئے مگرچل نہ سکے۔ ہاں ٹویٹر پر بھارت پاکستان اور افغانستان کے نوجوان پہلے بھی ہر روز ایک دوسرے کو گالیاں دیتے رہتے تھے‘ اب بھی دیتے رہیں گے۔ اس کام کیلئے پاکستان کا مین سٹریم میڈیا شاید ہی مطلوبہ نتائج حاصل کر سکے کیونکہ ان برسوں میں نہ ہماری ساکھ بچی ہے اور نہ اس ماحول میں ہمیں کسی نے سنجیدگی سے لینا ہے۔(بشکریہ دنیا)