تحریر: علی حسن ۔۔
پیسے والے سیاست دانوں کے ہجوم میں کسی نے تو قابل تقلید مثال قائم کی ہے۔ ضلع ٹھٹہ سے دوسری بار رکن سندھ اسمبلی منتخب ہونے والے علی حسن زرداری نے حکومت سندھ کے حکام کو باضابطہ طور پر تحریر میں دیا ہے کہ وہ بحیثیت وزیر اپنی 2900 سی سی گاڑی سرکار کو واپس کر رہے ہیں۔ وہ ڈیزل کے حصول کی سہولت سے بھی دست بردار ہو رہے ہیں اور وہ حکومت کے علم میں یہ بھی لانا چاہتے ہیں کہ وہ وزیر کی حیثیت سے اپنی تنخواہ اور تمام دیگر مراعات سے بھی اس وقت تک دست بردار ہوتے ہیں جب تک ملک کی معاشی صورت حال بہتر نہیں ہوجاتی ہے۔ کوشش کی گئی تھی کہ کسی طرح علی حسن زرداری سے رابطہ ہو جائے تو معلوم کیا جا سکے کہ انہیں کس نے تغریب دی کہ وہ اپنی سرکاری مراعات سے دست بردار ہو جائیں لیکن کامیابی نہیں ہو سکی۔ ایک طویل عرصے سے وہ اپنے موبائل فون سے دور رہتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی وزراء کے اس ہجوم میں کسی نے تو ملک کی نازک معاشی صورت حال پر اپنے درد کا مظاہرہ کیا۔ آصف علی زرداری نے صدر منتخب ہونے کے بعد اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی بھی اپنی تن خواہوں سے دست برداری کا پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں۔ وزیر آعظم شہباز شریف نے تو ایک کمیٹی قائم کر کے سمجھا کہ کفایت شعاری کی وہ تجاویز دے گی تو پھر غور کیا جائے گا۔
علی حسن زرداری کو پہلی بار حکومت سندھ میں وزیرجیل خانہ جات مقرر کیا گیا ہے۔ ان کا بنیادی طور پر تعلق ضلع بے نظیر آباد (نواب شاہ) سے ایک گاﺅں سے ہے۔ انہیں جب آصف زرداری نے اپنی سر پرستی میں لیا ہے، ان کے دن پھر گئے۔ آصف زرداری کے پہلی بار صدر منتخب ہونے کے بعد سے علی حسن واقعی زرادری بن کر ابھرے۔ وہ اس حد تک با آختیار ہو گئے تھے کہ کراچی سے اسلام آباد جانے والے ہوائی جہاز کا رخ نواز شاہ کرا لیا جاتا تھا اور علی حسن جہاز پر سوار ہو جاتے تھے ۔ کیسا بورڈنگ پاس، کیسی تلاشی اور کیسا ٹکٹ۔ آصف علی کے گمنامی کے دنوں میں علی حسن اپنے گاﺅں کے اطراف میں سائیکل پر دودھ فروخت کیا کرتے تھے۔ دیگر زرداریوں کی طرح علی حسن نے بھی معاشی طور پر بے مثال ترقی کی۔ انہیں پیپلز پارٹی نے ضلع ٹھٹہ ایک صوبائی نشست پر کامیاب کرایا ہے۔ ایک طرح سے وہ ضلع ٹھٹہ میں جہاں شیرازیوں کا سیاسی ڈنکہ بجتا تھا، بیک وقت قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی، سینٹ ضلع کونسل ان کی دست ترست میں تھے۔ غرض بڑے زرداری نے انہیں تمام چیزوں سے دست بردار کر ادیا ہے سوائے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کے۔ علی حسن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بھی بڑے زرداری کے معاملات کے یکے از فرنٹ مین ہیں۔ بڑے زرداری کے ذوالفقار مرزا کی طرح درجنوں فرنٹ میں ہیں۔ کوئی زرعی زمینیں دیکھتا ہے، فروٹ فارم کا انظام چلاتاہے، ڈیری فارمنگ کو دیکھتا ہے، تو شوگر ملوں کو کاروبار سنبھالتا ہے، کسی کی ذمہ داری پیٹرول پمپ کا حساب دیکھنا ہوتا ہے۔ بڑے زرداری کی جائیدادوں کے بارے میں ان کی یاداشت میں ایک ایک کا شمار ہے۔ جب کسی نے آنکھیں دکھائی یا ”مالک“ بننے کی جسارت کی تو ایک جھٹکے میں ذوالفقار مرزا بنا دیا گیا یا غلام مصطفے میمن بنا دیا گیا۔ غلام مصطفے پر کراچی میں زمین تنگ ہو گئی تھی جب اس نے زرداری کا مال ”ہڑپ“ کرنے کی کوشش کی۔ اسے سب چیزوں سے محروم کر کے پاکستان سے خالی ہاتھ اور خالی جیب فرار ہونے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ وہ دبئی گیا جہاں سے امریکہ گیا اور وہاں غم میں ہارٹ اٹیک ہونے کی وجہ سے انتقال کر گیا۔ صوبہ سندھ میں سیاست ہو یا کاروبار، سب کچھ ”پراکسی“ پر چلتا ہے۔
قیاس ہے کہ علی حسن کو بڑے زرداری نے ہی اتنا بڑا قدم اٹھانے کی ہدایت کی ہوگی۔ اتنا بڑا قدم جو پیپلز پارٹی کے لوگوں کے لئے قابل تلقید ہو سکتا ہے، علی حسن خود کیوں آٹھے گا۔ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی سے وابستہ تمام ہی لوگ پیسوں میں کھیلتے ہیں لیکن سیلاب او ر طوفانی بارشوں کے آزمائشی دور میں بھی کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ ضرورت مند لوگوں کی روٹی سے مدد کر سکتے۔ صرف صوبہ سندھ ہی کیا، پنجاب میں نواز شریف ، شہباز شریف، مریم یا حمزہ ہوں اور وفاقی کابینہ میں شامل تمام لوگ علی حسن کی تقلید کر ستے ہیں لیکن یہاں تو رویہ یہ ہے کہ مہنگے ترین معاوضہ پر وزیر خزانہ مقرر کیا گیا ہے، جو بظاہر پی آئی اے کی نجکاری کے لئے لایا گیا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اورنگزیب آئی ایم ایف کی پرچی پر آیا ہے لیکن انہیں کیوں اتنے بھاری معاوضہ پر لایا گیا ہے۔ اسی طرح وزارت خزانہ کو اپنے حق تصور کرنے والے اسحاق ڈار کو وزیر خارجہ مقرر کر دیا گیا اور وہ اپنی تقرری کے دورے روز ہی ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن اور جرمنی کے دورے پر روانہ ہوگئے ۔کیا کسی کو درد ہے کہ ملک کی معیشت کسی طور پر معمولی سا بھی خرچہ برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔
اگر تمام کے تمام وفاقی اور صوبائی وزراءاپنی متمام مراعات اور سہولتوں سے رضاکانہ دست بردار ہو جاتے ہیں تو کسی بھی حکومت کو ایک ارب ڈالر کے قرضے کے لئے آئی ایم ایف کے دفتر کے چکر نہیں لگانا پڑتے۔ وزیر آعظم شہباز شریف سے آغاز کیا جائے، ان کی کابینہ کے تمام آراکین اور تمام صوبوں کے وزراءان کی تقلید کریں۔ وزیر آعظم شہباز شریف کے لئے کیا مشکل ہے کہ اپنی جیب خاص سے اپنے تمام اخراجات برداشت کریں۔ وزیر آعلی پنجاب مریم جب پہلی بار اپنے دفتر میں سرکاری فرائض کی ادائیگی کے لئے آئیں تو ایک اندازے کے مطابق ان کے قافلہ میں کم سے کم 44گاڑیوں موجود تھیں۔ جو کام دو یا چار گاڑیوں سے چل سکتا تھا اس میں اس نمائش کیا کیا ضرورت تھے۔ البتہ اگر یہ نمائش کیپٹین رٹائرڈ صفدر یا تین بار ماضی میں وزیر آعظم نواز شریف کے خرچے سے ہوتا تو بہتر ہوتا۔ قومی خزانہ پر یہ بوجھ کیوں ڈالا جاتا ہے۔ ویسے وزیر آعلی نہایت قیمتی کپڑے تن زیب کرتی ہیں دنیا کی مہنگی ترین سینڈل پہنتی ہیں، مہنگا ترین پرس استعمال کرتی ہیں، اور ان کے میک اپ کے اخراجات کے تو چرچے ہیں۔ بھارت کی ایک ریاست بنگال کی وزیر آعلی ممتا بینر جی کی طرح سادگی سے بھی تو وقت گزارا جا سکتا ہے۔ فرق یہ ہی کہ پاکستان میں تو زندگی آئی ایم ایف کی بے ساکھیوں پر گزر تی ہے ۔ حالات کا شدید یہ تقاضہ ہے کہ تمام وفاقی اور صوبائی وزراءاور تمام آعلی افسران سادگی اپنائیں، اپنے ذاتی اور سرکاری اخراجات پر قابو پائیں تاکہ معیشت کو کوئی تو سہارا مل سکے۔ (علی حسن)۔۔