تحریر:سلیم انورعباسی
کلاسیک ادب اور اخبارات کے مطالعے کے فن سے آشنا ہونا خصوصاً نوجوان نسل کے لیے بہت ضروری ہے۔ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا، جرائد اور کتابوں کے وسیع ذخیرے پر مبنی طرزِ علم کوآپ ’’سبجیکٹ ایجوکیشن اسٹائل‘‘ کہہ سکتے ہیں، تاہم اخبار و کتب کاکاغذی پیراہن ہمیں اپنے اندر گم کیے رکھتا ہے۔ اخبارات اور کتب کے مطالعے کی عادت سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اور جب آپ مطالعہ میں کچھ وقت صرف کرتے ہیں تو پڑھی ہوئی کئی باتیں یاد رہ جاتی ہیں، جوکہ شاید سننے میں یاد نہیں رہتیں۔ آئیے پہلے اخبار کے مطالعے کا فن جانتے ہیں، پھر کلاسیک ادب سےحظ اٹھائیں گے۔
حصہ اول: اخبار کا مطالعہ
٭ مطالعے کا مقصد واضح ہونا چاہیے۔ اگر آپ کسی خاص موضوع پر مطالعے کے خواہاں ہیں تو آپ کو منظم ہونا پڑے گا۔ انگریزی اور اردو زبان کے اخبارات پانچویں جماعت سے لے کر کالج و یونیورسٹی سطح کے طلبہ و طالبات بآسانی پڑھ سکتے ہیں۔ وہ اپنے پسندیدہ تعلیم و صحت اور خواتین کے مضامین یا خبریں پڑھ سکتے ہیں۔ شوبز/انٹرٹینمنٹ صفحات سے بھی مطالعے کو دلچسپ اور تیز بنایا جا سکتا ہے۔
٭ اخبارات کے مضامین زیادہ تر ’’حاشیے میںاہرامی صورت‘‘ (ان ورٹیڈ پیرامڈاسٹرکچر) میں لکھے جاتےہیں یعنی اہم معلومات ابتدائی پیرا گراف میں ہوتی ہیں جہاں خبر یا کہانی کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔ اسےدھیان سے پڑھیں۔
حصہ دوم : مطالعہ کا طریقہ
٭ پہلے صفحے پر شہ سرخی پڑھیں، پھر مندرجات پر نظر ڈالتے ہوئے اسپورٹس، انٹرٹینمنٹ جیسے سیکشنز پر آئیں۔ کوشش کریں تعلیم و صحت اور سائنس و ٹیکنالوجی، ادب، تاریخ، فن و ثقافت اور سیر و سیاحت جیسے صفحات الگ کر کے خاص توجہ سے پڑھیں۔
٭ مضمون پڑھتے وقت اپنے’’منطقی ذہن ‘‘کو کھلا رکھیں۔ متن کے بارے میں اٹھنے والے سوالات ’’نوٹ بک‘‘ پر لکھتے جائیں۔ مضمون نگار نے کس کی کہانی بیان کی ہے ؟ کہانی کیا ہے؟ کیسے یہ واقعہ درپیش آیا؟ کہاں وقوعہ ہوا؟ چاہیں تو ’’مدیر کے نام خط‘‘ لکھ کر بھی آپ اپنی رائے سے آگاہ کر سکتے ہیں۔
٭جنگ اخبار اپنے قارئین کے مطالعہ کے لیے پورے ہفتے مختلف موضوعات پر کئی مضامین شائع کرتا ہے، جو ان کی معلومات میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔
حصہ سوم: اخبار کا انتخاب کیجیے
اخبارات تین قسم کے ہوتے ہیں ۔ قومی،مقامی اوربین الاقوامی۔ علاقائی، سرکاری اور مادری زبانوں کی صورت اخبارات کی یہ تینوں اقسام موجود ہیں۔ ویسے بھی ہمارا ملک کثیر لسانی رہا ہے۔ اسلامی ادب کی اساس عربی ہے تواردوادب کے تانے بانے فارسی، سنسکرت وہندی سے ملے ہوئے ہیں۔ اردو ادب کے شناور ہونے کے لیے فارسی و ہندی اور عربی زبان و ادب سے شناسائی لازمی بن جاتی ہے۔ انگریزی کا ماخذ عبرانی ،یونانی و لاطینی ہے،جن سےواقفیت کے بغیرانگریزی پر دسترس رکھنے کا دعویٰ عبث ہے۔ ہماری مشرقی و مغربی زبانوں کے ماخذ حیرت انگیز طور پر مساوی ہیں۔ ذہین طالب علموں کوزبان و ادب کے مطالعے میں تنگ نظر نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وسعتِ علم رکھنے والے ہی وسیع و کشادہ ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔
مشکل ناول کا انتخاب کریں
٭ کلاسیک ادب سے تعلق رکھنے والے ایڈونچر،سسپنس، تھرلر، رومانٹک، گھوسٹ، ہورر اور سائنس فکشن ناولز کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیں دنیا و مافیہا سے بیگانہ کر دیتے ہیں۔ ایسا مشکل ناول لیجیے جو سر سے گزر جائےاورآپ کا ’’تخیل ساز ذہن‘‘ قیاس آرائیاں کرتے ہوئےکہانی کے بطن سے ایک اور کہانی جنم دے۔
٭ مطالعے کے وقت موسیقی کی دھُن جیسے کہ گٹار، پیانو یاطبلہ چلا کرآواز کی لہروں کے ذریعے خود کو مطالعے میں ڈبو دیں۔ آواز اور الفاظ کا رشتہ بہت گہرا ہے۔ بلند آواز میں پڑھیں یا دل میں، ہر دو صورت موسیقی کے سر ’’ارتکازِ توجہ‘‘ کے لیے جادوئی تاثیر رکھتے ہیں۔
٭ کہانی پڑھنے کےساتھ ذہن میں کون؟ کہاں؟ کب ؟ کیسے؟ کے سوالات اٹھاتے جائیں:’’ مرکزی کردار کیاچاہتا ہے؟ کہانی کون بیان کر رہا ہے؟پس منظر کیا ہے؟ بیانیہ کیا ہے؟ کہانی کا اسٹائل کیا ہے؟ایسا کرنے سے آپ کے اندر کہانی بیان کرنے کا ہنرآئے گا۔
ہرباب مکمل ہونے پر کہانی کا خلاصہ اس اعتماد سے رقم کریں کہ جیسے آپ کا کیا گیا’’ تبصرہ ‘‘ کتب کے لئے بھیجناہے ۔ آپ کا وسیع مطالعہ اور اس سے اخذ کردہ نتائج آپ کو ادبی دنیا میں بہترین تنقید نگار کے روپ میں اُجاگر کر سکتے ہیں۔
ہم جماعت طالب علم یا گروپ مل کر ’’ریڈنگ سیشنز‘‘ کا اہتمام کر سکتے ہیں۔ ناولز کاخلاصہ اور تبصرے پڑھ کر کہانی کے مزاج و ماحول کو سمجھا جاسکتا ہے اور اس کے علاوہ ماخوذ ناول کی فلم یا ڈراما بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ دل چاہے تو مذکورہ ناول کو اپنے رائٹنگ اسٹائل میں دوبارہ لکھنے کی کوشش کریں تاکہ آپ کی لکھنے کی صلاحیتیں نکھریں۔
٭ کوشش کریں کہ ناول پڑھتے وقت طرزِ نگارش، اسلوب، موضوع، علامت و استعارہ، تشبیہات و تلمیحات جیسی ادبی اصلاحات کے بارے میں آپ کو بنیادی اور ضروری معلومات ہوں۔
٭ اگر آپ ادیب و مصنف بننا چاہتے ہیں تو تحریر کے فنی رموز کے ساتھ چیزوں کا گہرا مشاہدہ بھی درکار ہوتا ہے،کیوں کہ گہرے مطالعے و مشاہدے سے خبر اورکہانی کا ظہور ہوتا ہے۔(بشکریہ جنگ)