تحریر: شبانہ سید
سوشل میڈیا کی اس مصنوعی دنیا میں اب نہ کچھ لکھنے کو دل چاہتا ہے ،، نہ کہنے کا۔ لیکن اندر کا صحافی اور سب سے بڑھ کر انسان ،،جینے نہیں دیتا۔ انگلیاں خود بہ خود کی بورڈ پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے لگتی ہیں۔
بہت شور ہے ،، غریب کی دہائیاں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے والے میڈیا کی اپنی سانسیں گھٹنے لگی ہیں۔ ٹی وی اسکرین پر بریکنگ کے ڈبے گھماتے گھماتے ،، ان ڈبوں میں کب ساتھیوں کی نماز جنازہ کی خبریں شامل ہوگئیں پتہ ہی نہیں چلا۔
مان لیا ۔۔ بہت کڑا وقت ہے۔ طاقت کے گھمنڈ میں رہنے والوں کو اپنے ماتحتوں کے دکھ نظر نہیں آتے۔ لیکن ہم نے خود کبھی کچھ کیا ہے؟ کیا کبھی ہم نے صحیح معنوں میں اپنے دل کی آنکھ سے اپنے پڑوس میں بیٹھے ساتھی کا درد سمجھنے کی کوشش کی ہے؟؟ ہارٹ اٹیک ، نماز جنازہ ، افسوس، تعزیت ،، نارمل روٹین ،، پھر کوئی ہارٹ اٹیک۔۔ یہی چین شروع ہوگئی ہے ناں؟ تو اس چین کو توڑنے کے لیے ہم نے کیا حصہ ڈالا؟ کوئی کوشش؟ کوئی دل جوئی ؟ کوئی حوصلہ افزائی؟ کوئی امید؟ کسی کو کچھ دیا؟
آج دل بہت افسردہ ہے۔ ایک کے بعد ایک جنازے انسانوں کے نہیں۔بلکہ خود انسانیت کے ہیں ۔ مجھے آج ایک وڈیو یاد آرہی ہے۔ ایک نوجوان تھا ۔ وڈیو مرنے سے ایک دن پہلے اس نوجوان نے اپنے موبائل فون میں بنائی تھی۔ جسے دیکھ کر میرا دل بند ہوگیا تھا۔ آج تک سوچتی ہوں،، کاش اس وقت کوئی ہوتا جو اس کی سنتا۔اس کو حوصلہ دیتا۔ سڑک کے بیچوں بیچ گاڑیوں کے درمیان اندھادھند چلتے ہوئے کوئی غم زدہ گانا گارہا تھا۔ جیسے زندگی سے دل برداشتہ ہوچکا ہو۔ اس رات کسی گاڑی کے نیچے آنے سے تو بچ گیا ،،لیکن اگلے روز ہارٹ اٹیک سے نہ بچ سکا۔ جانتے ہیں کیوں؟؟
کیوں کہ ہم کڑے وقت میں اپنوں کو ، اپنے ساتھیوں کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہر زخم کا علاج روپے نہیں ہوتے۔ کبھی کبھی ذرا سا حوصلہ، کچھ تسلی کے الفاظ ،، دل ناتواں کا بوجھ کم کردیتے ہیں۔ دوسری صورت میں جب انسان بے بسی محسوس کرتا ہے تو دل کام کرنا چھوڑ دیتا ہے ، یا خودکشی سب سے آسان حل نظر آنے لگتی ہے۔
چلیے ذرا عملی زندگی پر نظر ڈال لیتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو پریکٹیکل لائف میں ایک دوسرے کو سپورٹ کر رہے ہیں؟ میڈیا کی اس فیلڈ میں ایسے ہیرے موجود ہیں ، جن کے تجربے کا ڈنکا بجتا تھا۔۔پھر چاہے وہ کیمرا مین ہوں ، ایڈیٹرز ، رائٹرز ، پروڈیوسرز ۔۔۔ میڈیا کے گولڈن پیریڈ کے پکے کھلاڑی ۔۔۔ لیکن آج وہ بھی یا تو بے روزگار ہیں یا بغیر تنخواہ کی بے گار کر رہے ہیں۔
مجھے اٹھارہ سال کی میڈیا جاب کے بعد بہ حیثیت entrepreneur فیلڈ میں آئے ایک سال ہوا ہے۔ اس ایک سال میں وہ تجربے ہوئے جو شاید پورے کیرئیر میں بھی نہیں ہوئے۔ لیکن آج میں کم از کم اس نتیجے پر ضرور پہنچ چکی ہوں کہ کامیابی © ،،، ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر چلنے میں ہے۔ لیکن جب میں اپنی میڈیا کی فیلڈ پر نظر دوڑاتی ہوں ،، مجھے بہت کشمکش کی صورتحال نظر آتی ہے۔ نوکریوں سے دل برداشتہ ہوکر اگر ہم کوئی کام کر رہے ہیں تو کیوں اپنے ان ساتھیوں کو شریک نہیں کرتے جو کام کی تلاش میں ہیں؟ میں کسی مسجد کے منبر پر براجمان نہیں ہوں کہ وعظ دوں اور لوگ آنکھ بند کرکے یقین کرلیں۔ لیکن ہاں،، ایمان کے اس درجے پر ضرور ہوں کہ اس بات کا یقین ہے،، رزق ۔۔۔ چھینا نہیں جاسکتا۔تو جب یہ طے ہے کہ ہر ایک کے رزق کی ذمہ داری خود اللہ نے اٹھائی ہے ،، ہمیں صرف کوشش کرنا ہے۔ تو ان کوششوں میں دھکم پیل کیوں؟ ہم کیوں اپنے آس پاس موجود لوگوں کی زندگیاں آسان نہیں بناتے؟ چلیں،،، آج سے کوشش کرلیں؟ کسی پوزیشن پر ہیں تو اپنے ماتحتوں کے کام آئیے۔ اپنا کام کرتے ہیں تو کوششوں کا دائرہ اس سمت میں بڑھائیے کہ خود اپنے ساتھ چار ساتھیوں کے لیے بھی کام کا وسیلہ بن سکیں۔ ہفتے دس دن میں اپنے ان ساتھیوں کی خبرگیری کرلیجئے جنہیں کسی دن آپ نے بہت پریشان دیکھا تھا ۔ تاکہ پھر کسی دن آپ کو یہ پوسٹ نہ لکھنا پڑے کہ وہ فلاں دن ملا تھا تو بہت پریشان لگ رہا تھا۔ کیا معلوم تھا خودکشی ہی کرلے گا۔ یا کیا معلوم تھا ایسی جواں عمری میں ہارٹ اٹیک ہوجائے گا۔
کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھ رہی ہوں ۔۔ جس کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ آج کل ڈپریشن وغیرہ بہت ہے ،، تو یہ اسٹیٹس کاپی پیسٹ کیجئے ،، جس کا مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ آپ کو جب میری ضرورت ہوگی میں یہاں موجود ہوں۔۔۔ ( جب کہ ایکچولی ہم ایک دوسرے کے لیے کبھی دستیاب نہیں ہوتے خاص طور پر مشکل وقت میں) تو ساتھیوں ،، سوشل میڈیا کے ان جذباتی دعووں سے باہر آئیے۔ کچھ پریکٹیکل کریں۔ میں بھی کوشش کروں گی آپ بھی کیجئے۔
زندگی کسے پیاری نہیں ہوتی صاحب؟؟؟ ہر شخص جینا چاہتا ہے۔ بس ذرا کڑے وقتوں میں تھوڑا سا حوصلہ چاہیے۔ نوکری نہیں دے سکتے۔ کام نہیں دے سکتے۔ دو لفظ حوصلہ تو دے سکتے ہیں؟ اپنے دفتر کے ساتھی کی مدد نہیں کرسکتے ،، کچھ ایسا تو کرسکتے ہیں جس سے اسے حوصلہ ہو کہ وہ اکیلا نہیں۔؟ سب چھوڑیے ۔۔۔ خدارا ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا ہی چھوڑ دیجئے۔ مسائل ہمیشہ مالی نہیں ہوتے۔ کبھی کبھی ہمارے رویے بھی ساتھیوں کے لیے سانس لینا مشکل بنادیتے ہیں۔ اس لیے حوصلہ رکھیے۔ اور حوصلہ دیجئے۔۔ (شبانہ سید)