تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،ایک خبرکے مطابق بھارت میں ایک گھریلو ملازمہ کو چوری کیے گئے زیور پہن کر واٹس ایپ پر اپنی تصویر لگانا مہنگا پڑ گیا۔بھارتی ریاست آندرا پردیش کے ضلع گنٹور کے ایک علاقے میں مسروقہ زیورات پہن کر واٹس اپ اسٹیٹس پر تصویر لگانے والی گھریلو ملازمہ گرفتار کر لی گئی۔پولیس کے بیان کے مطابق 29 نومبر کو امود نامی شخص کے فلیٹ میں چوری کی واردات ہوئی تھی، جس میں 4 طلائی چوڑیاں، ایک نیکلس، کان کی 2 بالیاں، بے بی چین اور دیگر قیمتی چیزیں اڑائی گئی تھیں۔پولیس نے مالک مکان کی شکایت پر چوری کا مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کی، تاہم امود کی بیوی نے ملزمہ سنیتا کو مسروقہ ساڑی اور زیورات پہن کر شوہر کے ساتھ لی گئی تصویر کو واٹس اپ اسٹیٹس میں لگا ہوا دیکھا تو حیران رہ گئی۔امود کی بیوی نے فوری طور پر اس کی اطلاع اپنے شوہر کو دی، جنھوں نے پولیس کو خبردار کر دیا، پولیس نے بعد ازاں علاقے کے ایک بس اسٹینڈ کے قریب سے سنیتا کو حراست میں لے لیا۔
بھارت سے ہی ایک اور دلچسپ خبر گزشتہ دنوں ہم نے پڑھی اور ہمارے ذہن سے چپک کر رہ گئی تھی، ابھی چورملازمہ کی گرفتاری کی خبر پر وہ بھی یاد آگئی۔۔خبر کچھ یوں تھی کہ۔۔بھارتی شہر بریلی میں دلہن نے رقص کے لیے مجبور کرنے پر شادی سے انکار کردیا جس پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا تاہم والد نے بیٹی کا فیصلہ درست قرار دے دیا۔بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر بریلی میں لڑکی اور اس کے اہل خانہ شادی کے لیے پہنچے جہاں پہلے دھوم دھام سے شادی کی تیاریاں کی گئیں، شادی والے دن دلہا کے دوستوں نے دلہن کو رقص کرنے کے لیے زبردستی اسٹیج پر بلایا جس پر غصے میں آکر دلہن نے شادی سے انکار کردیا۔دلہن کی جانب سے انکار کے بعد ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا اور دونوں خاندانوں کے درمیان لفظی گولا باری بھی ہوئی۔ دلہن کے والد کا کہنا ہے کہ میری بیٹی کو زبردستی رقص کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا اور جو شخص میری بیٹی کی عزت نہیں کرسکتا میں اس سے بیٹی کی شادی نہیں کرسکتا۔دلہن کے انکار کے بعد دلہا اور اس کے اہل خانہ نے لڑکی کو شادی کے لیے منانے کی بھی کوشش کی تاہم دلہن نے نہ صرف شادی سے صاف انکار کردیا بلکہ پولیس میں جہیز کے معاملے پر دلہا کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی۔پولیس کی مداخلت کے بعد دلہا نے لڑکی والوں کو ساڑھے 6 لاکھ روپے بھی ادا کیے جس کے بعد معاملہ ختم ہوا۔ چورملازمہ حدسے زیادہ ہی معصوم اور بھولی نکلی، اسے کیا ضرورت تھی،زیورات کی نمائش کرنے کی۔۔ لیکن مسئلہ وہی ہے کہ خواتین جب تک دکھاوا نہ کریں ان کی روح کو سکون نہیں ملتا، اسی دکھاوے کے چکر میں بے چاری پکڑی گئی۔۔معصوم توخیر سردارجی بھی بہت ہوتے ہیں۔۔ایک سردار جی اپنی محبوبہ کے گھر گئے، دستک دی، ان کی محبوبہ نے اندر سے سوال کیا، کون؟؟ سردار جی کے لبوں پر مسکراہٹ آئی، مونچھوں پر تاؤ دے کر کہا، میں۔۔محبوبہ پہچان نہ سکی، پھر سوال کرڈالا۔۔ میں کون؟ سردارجی برجستہ بولے۔۔ لے دس ! کملی توں گلابو ہور کون۔۔جب انہی سردار جی کو کسی نے بتایا کہ ۔۔باہر تمہارا دوست تمہارے بھائی کو مار رہا ہے،سردار جلدی سے باہر گیا، تھوڑی دیر بعد واپس آیا اور بولا ۔۔ایسے ہی چکر لگوا دیا وہ میرا دوست نہیں ہے۔۔ ہر کوئی سردار جی کی طرح معصوم نہیں ہوتا، خاتون خانہ نے جب کہا کہ ، میں نے گدھوں پر ریسرچ کی ہے وہ اپنی گدھی کے سوا کسی دوسری گدھی کو دیکھتا تک نہیں۔۔۔۔شوہرنے بیگم کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے کہا، پاگل اسی لیے تو اسے گدھا کہتے ہیں۔۔۔
ساس اور بہو بھی خواتین ہوتی ہیں۔۔ کہتے ہیں کہ انیس سو نوے میں بہو ڈرتی تھی کہ ساس نجانے کیسی ملے؟؟ اب دوہزار بیس کا اینڈ ہے ،ایک روز بعد ہی دوہزار اکیس شروع ہوجائے گا، اب ساس ڈرتی ہے کہ بہو نجانے کیسی ملے؟؟ یہ سب سمجھ کا ہیرپھیر ہے، جو انیس سو نوے میں بہوئیں تھیں خیر سے اب ساسیں بن چکی ہیں لیکن خوف اپنی جگہ برقرار ہے۔۔ ایک ساس نے نئی نویلی بہو سے کہا۔۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ تم کچن سنبھال لو گی۔۔بہو کچن میں گئی اور برتن ٹوٹنے کی آواز آئی ۔۔ساس نے چیخ کر پوچھا۔۔کیا توڑا؟؟ بہو کی آواز آئی۔۔بھروسہ۔۔نمازجمعہ میں جنت دوزخ سے متعلق خطبہ چل رہا تھا، ایک شخص اچانک کھڑا ہوا اور سوال کربیٹھا کہ۔۔مولانا صاحب جنت کی مثالیں تو کئی نظر آجاتی ہیں، مثال کے طور پر ٹھنڈی ہوا، خوب صورت نظارے، خوش ذائقہ پھل، حسین خواتین۔۔لیکن دوزخ کی کوئی واضح مثال نظر نہیں آتی؟؟ مولانا صاحب نے سوال پوچھنے والے نمازی کی پوری بات انتہائی توجہ سے سنی اور مسکراتے ہوئے کہا۔۔غیرشادی شدہ لگتے ہو۔۔
صرف خواتین ہی معصوم نہیں ہوتیں، کچھ ہماری طرح کے پینڈو بھی بہت سادہ اور معصوم ہوتے ہیں۔۔ایک دیہاتی ایک فائیو ا سٹار ہوٹل میں کھانا کھانے چلا گیا۔ویٹر نے آڈر لیا۔۔دیہاتی نے پوچھا۔کیا کیا پکا ہے ؟؟ ویٹر نے بڑے مودب انداز میں کہا۔۔جناب، چکن کڑاہی۔۔چکن چلی۔۔مغز ۔۔چکن فرائی۔۔مٹن۔۔بیف کڑاہی۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔دیہاتی کو اتنے مشکل مشکل نام سمجھ نہ آئے،اس نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔۔سارا کچھ لے آؤ۔۔ویٹر نے اوکے کہا اور کچھ ہی دیر میں سب کچھ لاکر ٹیبل پر سجادیا۔۔دیہاتی نے اتنی ساری ڈشیں دیکھیں پھر کچھ لمحے سوچا، اسے لگا کہ شاید یہ سب کچھ بہت مہنگا ہوجائے گا اور اتنے مہنگے کی جیب اجازت نہیں دیتی۔۔اب دیہاتی نے ویٹر سے ریٹ پوچھنا شروع کردیئے۔۔اس کا کیا ریٹ ہے؟ اس کا کیا ریٹ ہے؟؟ ویٹر غریب دیہاتی کو سب ڈشوں کے ریٹ بتاتا گیا۔۔آخر میں دیہاتی نے چٹنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا اس کا کیا ریٹ ہے؟؟ ویٹر نے مسکرا کرکہا۔۔سر یہ چٹنی فری ہے۔۔ویٹر کی بات سن کر دیہاتی کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔۔فوری بول پڑا۔۔باقی سارا کچھ چُک لے بس۔۔چٹنیاں پیاں رہن دے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔فرض کیجئے آپ چائے کا کپ ہاتھ میں لیے کھڑے ہیں اور کوئی آپ کو دھکا دے دیتا ہے، تو کیا ہوتا ہے؟ آپ کے کپ سے چائے چھلک جاتی ہے۔ اگر آپ سے پوچھا جائے کہ آپ کے کپ سے چائے کیوں چھلکی؟ تو آپ کا جواب ہوگا : کیونکہ فلاں نے مجھے دھکا دیا۔۔اگر آپ نے کسی پر دھکے کا الزام لگایا تو یہ غلط جواب ہوگا۔۔درست جواب یہ ہے کہ آپ کے کپ میں چائے تھی اسی لیے چھلکی۔ آپ کے کپ سے وہی چھلکے گا جو اس میں ہے۔۔اسی طرح جب زندگی میں ہمیں دھکے لگتے ہیں لوگوں کے رویوں سے، تو اس وقت ہماری اصلیت ہی چھلکتی ہے۔ آپ کا اصل اس وقت تک سامنے نہیں آتا جب تک آپ کو دھکا نہ لگے۔تو دیکھنا یہ ہے کہ جب آپ کو دھکا لگا تو کیا چھلکا؟ صبر، خاموشی، شکرگزاری، رواداری، سکون، انسانیت، وقار۔۔یاغصہ، کڑواہٹ، جنون، حسد، نفرت، حقارت۔چن لیجئے کہ ہمیں اپنے کردار کو کس چیز سے بھرنا ہے۔فیصلہ ہمارے اختیار میں ہے۔۔کامیابی کاراز آپ کے سامنے ہے۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔