تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، عید کے بعد پہلا اتوار ہے، آپ سب کی عید تعطیلات کیسی گزریں، ہم نے تو ڈٹ کر نیند ہی پوری کی۔۔ہمارے ملک میں مردوں کی اکثریت عید پر نیند ہی پوری کرتے نظر آتے ہیں، شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ رمضان المبارک میں ’’اوورآل‘‘ نیند کا دورانیہ کم ہوجاتا ہے اور نیند پوری نہیں ہوپاتی، آخری عشرے کی طاق راتیں اور چاند رات جسے’’ لیلۃ الجائزہ ‘‘ بھی کہتے ہیں جو لوگ ان مقدس راتوں میں عبادت کرتے ہیں ،تو پھر نیند پر اثر تو پڑنا ہی ہے۔۔خیر ۔۔یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی، اوٹ پٹانگ باتوں کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔۔ ایک گاؤں میں چوری ہوگئی، باوجود لاکھ کوشش کے چور نہیں پکڑے جاسکے، کھوجی بھی ناکامی کا شکار رہے۔۔ سب گاؤں والوں نے فیصلہ کیا کہ ۔۔ دو آدمی قرآن مجید چادر میں تھام کر رکھیں اور باقی نیچے سے یہ کہتے ہوئے گزریں کہ اگر میں نے چوری کی ہو تو میں تباہ ہو جاؤں۔۔اس واقعہ کو بھی ایک سال ہوگیا لیکن گاؤں کا کوئی بندہ بھی جو چادر کے نیچے سے گزرا تباہ نہیں ہوا۔۔تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا جن لوگوں نے چوری کی تھی وہ قرآن مجید چادر میں تھامے کھڑے تھے اور دوسروں کو نیچے سے گزار رہے تھے۔۔نوٹ: یہ واقعہ قطعی غیرسیاسی ہے ،اسے موجودہ حکومت کے ساتھ ہرگز،ہرگز نہ جوڑا جائے۔۔
آپریشن تھیٹر میں ڈاکٹر بڑبڑا رہا تھا۔۔گھبرا مت رشید ، یہ بہت چھوٹا سا آپریشن ہے۔۔اسٹریچر پر پڑے مریض نے بڑے تشکرانہ انداز میں کہا۔۔شکریہ ڈاکٹر صاحب،آپ نے مجھے حوصلہ دیا۔ پر میرا نام رشید نہیں، افضل ہے۔۔ڈاکٹر نے بے زاری سے کہا۔۔ہاں،ہاں، مجھے پتہ ہے، رشید میرا نام ہے۔۔یہ واقعہ ہماری ایک آفس کولیگ نے سنایا۔۔میں اپنی کزن سے ملنے اس کے گھر گئی۔اس نے نیا نیا گھر شفٹ کیا تھا۔۔دوران ملاقات پوچھا۔۔گھر کیسا لگا؟کزن بولی۔۔ گھر تو بہت اچھا ہے۔مگر سامنے والے ہمسا ئیوں کی وجہ سے پریشان ہوں۔۔میں نے پوچھا ،وہ کیوں؟۔۔اس پر کزن بولی۔۔اس مکان میں دو نئے نویلے میاں بیوی رہتے ہیں،جب دیکھو ان کے چونچلے جاری رہتے ہیں۔میاں نے بیوی کو ہاتھ کا چھالا بنایا ہوا ہے۔ہر وقت ناز برداریاں اٹھاتا ہے۔۔لاڈ۔۔پیار۔ہنسی مذاق۔۔میں بولی، بیوی کے چونچلے اٹھا نا کوئی بری بات نہیں۔۔بس اس طرح دنیا کے سامنے نہیں کرنا چاہئے۔۔اتنا کہہ کر میں نے اٹھ کر کھڑکی کھول لی۔۔آخر تجسس بھی تو کوئی شئے ہے ناں۔۔میں نے اپنی کزن سے کہا۔۔ کہاں؟ یہ تو صرف پھول دان نظر آ رہا ہے۔۔’’یہ ٹیبل دیوار کے ساتھ لگاؤ۔۔اس پر اسٹول رکھو۔۔پھر روشن دان سے دیکھو۔۔روشن دان سے۔۔‘‘کزن نے اپنے جھانکنے کا طریقہ کار بتلا یا۔ایک ہوٹل تیتر کا گوشت پکانے کے لیے مشہور تھا۔۔اس عید پر ہم بھی دوستوکے ساتھ سپرہائی وے پر تیتر کا گوشت کھانے کی نیت سے جاپہنچے۔۔ کھانے کے دوران شک گزرا کہ تیتر کے گوشت میں ملاوٹ کی گئی ہے۔ بیرے کو بلا کر پوچھا۔۔سچ سچ بتاؤ، اس میں ملاوٹ کی گئی ہے؟۔۔بیرے نے جواب دیا۔۔سچی بات ہے جی، تیتر کا گوشت مہنگا اور نایاب ہی اتنا ہے کہ اس میں گائے کے گوشت کی ملاوٹ کرنا پڑتی ہے۔ ۔ہم نے پوچھا، کتنی ملاوٹ کرتے ہو؟؟ بیرا بولا۔۔ جناب ففٹی ،ففٹی۔۔کیا مطلب؟؟ ہم نے وضاحت چاہی۔۔۔ بیرامودبانہ انداز میں کہنے لگا۔۔ جناب ایک تیتراور ایک گائے۔۔
ایک بوڑھی عورت بس میں سفر کر رہی تھی۔ اور ساتھ والے سیٹ پر بیٹھے نوجوان سے بار بار کہہ ہی تھی۔۔ بیٹا۔۔جب لالا موسٰی آجائے تو مُجھے بتا دینا۔ سفر لمبا تھا اِس لیئے بوڑھی عورت کی تھوڑی دیر بعد آنکھ لگ جاتی۔ پھر ایک دم جاگ کر پوچھتی۔۔۔ بیٹا، لالہ موسیٰ آگیا؟؟۔۔نوجوان کہتا۔۔اماں، جب لالا موسٰی آئے گا تو میں آپ کو بتا دوں گا۔ بوڑھی عورت یہ سُن کر مُطمین ہوکر آنکھ بند کرکے سو جاتی۔اچانک کچھ یوں ہوا کہ نوجوان کی بھی آنکھ لگ گئی اور لالا موسیٰ گزرگیا۔۔لالا موسیٰ سے آدھا گھنٹے کے سفر کے بعد نوجوان کی آنکھ کھُلی۔ تو راستہ دیکھ کر چونک گیا،،،اور اپنا سر پکڑ لیا۔ بوڑھی عورت اسی طرح سو رہی تھی۔وہ چُپکے سے ڈرائیور کے پاس پہنچا اور کہا۔ یہ بوڑھی عورت لالا موسٰی اُترنا چاہتی تھی۔ لیکن اس کی آنکھ لگ گئی۔۔ڈرائیور بھی یہ سُن کر پریشان ہوگیا۔۔اور گاڑی سائیڈ پے کھڑی کر دی تاکہ حالات سے نمٹنے کا کوئی طریقہ سوچا جاسکے۔۔ بہت سوچ بچار کے بعد گاڑی واپس موڑنے کا فیصلہ کیاگیا، کیوں کہ بوڑھی عورت اتنی سفر پیدل نہیں کر سکتی تھی۔۔ بس میں موجود کچھ مُسافروں نے بس موڑنے کی مخالفت کی۔ لیکن حالات کی نزاکت کو دیکھ کر خاموش ہوگئے۔۔ خیر بوڑھی عورت کے سوتے ہوئے ہی گاڑی واپس موڑلی گئی اور آدھے گھنٹے میں بس لالا موسٰی پہنچ گئی۔۔نوجوان نے پُرجوش انداز میں بوڑھی عورت کو جگایا اور بولا۔۔اماں، اماں۔۔لالا موسٰی آگیا۔بوڑھی عورت نے جاگ گئی اور اپنے ساتھ پڑے ایک چھوٹے سی بیگ کھولنے لگی۔ اور اس میں سے دوائیوں کی شاپر نکال کر اُس میںموجود درجنوں ٹیبلیٹ میں سے ایک گولی کھا کر بوتل سے پانی پینے کے بعد تمام دوائیاں واپس بیگ میں سنبھال کر سیٹ سے ٹیک لگاکر سوگئی۔۔نوجوان اور باقی لوگ حیرانی سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ نوجوان نے بوڑھی عورت سے پوچھا۔۔ اَماں۔۔آپ نے اُترنا نہیں ہے۔؟؟ ۔۔بوڑھی عورت بولی۔۔ بیٹا ڈاکٹر نے کہا تھا یہ ایک گولی لالا موسٰی پہنچ کر کھا لینا۔۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں ذہین صرف دو قسم کے ہی لوگ پائے جاتے ہیں، ایک لاہوری۔۔اور دوسرے وہ جو۔۔ پائین تسی سیدھے جا کے کھبے مڑنافیر تھوڑا جیا اگے جا کے کھمبا آئے گا فیر اوں نوں ہو جانا فیر تسی مڑنا نئیں اگے پہلا چوک آئے گا اوتھوں ایں نوں مڑ کے فیر پہلی گلی جیہڑی ایں نوں جا ری اے مڑ جانا سیدھے بھاٹی گیٹ۔۔۔جو یہ سمجھ جاتے ہیں۔۔ہم نے ایک بار لاہور میں ایک کافی عمر کے باباجی سے پوچھا، باباجی، کوئی ایسا حل بتائیں کہ بندہ دن رات اے سی بھی خوب چلائے اور بجلی کا بِل بھی نہ آئے۔ ۔باباجی نے ہمیں غور سے دیکھا، پھر گھورا، پھر کان پہ لگی سگریٹ نکالی،اسے ایک ہاتھ سے پکڑا اور دوسرے ہاتھ کے انگوٹھے پر ٹھونکنے لگے، پھر سگریٹ منہ سے لگائی، جیب سے ماچس نکالی، تین تیلیاں ضائع کرنے کے بعد چوتھی ٹرائی میں سگریٹ جلائی، لمبا کش کھینچا،پھر سارا دھواں ہمارے منہ پہ چھوڑتے ہوئے بڑے اطمینان سے فرمانے لگے۔۔ پْتر۔اے سی تھلے دو ٹا ئر لَوا لے۔ تے چلا کے جتھے مرضی لے جا۔ بل نئیں آئے گا۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔گرمیاں شدید ہیں، اپنے شادی شدہ بھائیوں کے لیے ایک مفید مشورہ ہے کہ جب بھی فریج سے پانی پینے کے لیے بوتل نکالیں تو اسے دوبارہ بھر کر واپس رکھیں۔نہیں تو لیکچر بوتل سے شروع ہو گا اور پھر بات بچوں سے ہوتی ہوئی،برے نصیب، داخلی و خارجی امورسمیت خاندانی مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے سچا پیار نہ ملنے جیسے طعنے پر ختم ہوگی۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔