تحریر شعیب صدیقی
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہونے کیا جارہا ہے ؟ پاکستان جیسے ملک میں جہاں جمہوریت ہمیشہ “انتہائی نگہداشت کے وارڈ” میں رہی ہے ،وہاں اب ایسا محسو ہوتا ہے کہ ہماری جمہوریت ” وینٹی لیٹر” پر چلی گئی ہے۔ کوئی ہے جس نے ایک “جمہوری” حکومت کو مصنوعی تنفس پر زندہ رکھا ہوا ہے لیکن تمام مدت تو کوئی وینٹی لیٹر پر نہیں رہ سکتا ہے اس لیے بہت سے لوگوں کے لیے بہت سے فیصلے ناگزیر ہوچکے ہیں۔ سب سے پہلے تو اس ” مریض حکومت “کو خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ خود اپنے پیروں پرچل کر اس مملکت خداداد کا بوجھ اٹھاسکتی ہے یا نہیں؟ یہاں جواب سیدھا سا ہے کہ ہر حکمران خود کو عقل کل سمجھتا ہے اور وہ خود کو ناگزیر جانتا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے ہےکہ عمران خان نے پاکستان کو بھی ایک کرکٹ ٹیم سمجھ لیا ہے اوروہ اب بھی اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ 1992 کے ورلڈ کپ کی طرح ان کی حکومت ملک کو بھی اسی طرح پوائنٹس ٹیبل پر سب سے نچلے درجے سے اٹھاکر کامیابی کی منازل طے کرادے گی۔ خان صاحب شاید بھول رہے ہیں کہ ایک کرکٹ کے میچ اور امور مملکت چلانے میں زمین آسمان کافرق ہےاور اگر ہم ورلڈکپ کی مثال بھی سامنے رکھ لیں تو اس میں کم از کم وسیم اکرم اور انضمام الحق جیسے میچ ونر اور جاوید میاندادجیسے کرکٹ جینئس تو موجود تھے جبکہ کپتان کی موجودہ ٹیم تو” ریلو کٹوں” پر مشتمل ہے جنہیں مختلف ٹیموں سے نکال کر کپتان کے حوالے کیا گیاہے۔
خان صاحب عوام کو لاکھ امید دلائیں اور عیسیٰ خیلوی اپنی درد بھری آواز میں نویدسنائیں کہ “اچھے دن آئے ہیں”،حکمران ریاست مدینہ کی بات کریں لیکن یومیہ بنیادوں پر مہنگائی میں اضافہ ہوتو سمجھ لینا چاہیے کہ ایوب خان کی صنعتی ترقی سے ذوالفقار علی بھٹو کے اسلامی سوشلزم، “مرد مومن مرد حق” کےشرعی نظام سے میاں صاحب کے ایشین ٹائیگر تک کے نعروں میں سے جس نعرے پر عوام کو سب سے زیادہ دھوکا دیا گیا ہے وہ خان صاحب کا تبدیلی اور ریاست مدینہ کا نعرہ ہے۔سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ یہ کیسے “اچھے دن “ہیں کہ درآمدات میں اضافہ اور برامدات میں کمی ہورہی ہے۔ ڈالر آسمان اور روپیہ زمین پر آرہا ہے۔ پٹرول تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چند دنوں بعد ساشے پیک میں دستیاب ہوگا۔
چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ اپوزیشن توہے ہی نکمی لیکن یہ جو” دودھ سے دھلے “حکمران ہیں ان کا طریقہ حکومت کیا ہے؟ یہ جس چیز کا نوٹس لیتے ہیں اس کا مزید بیڑا غرق ہوجاتا ہے۔ یہ تین سال میں آدھے درجن کے قریب وزیر خزانہ تبدیل کرچکے ہیں۔ جس کو چپراسی رکھنے کے لیے تیار نہیں تھے اس کے ہاتھ میں پورے ملک کے امن و امان کی ذمہ داری دیدی ہے۔ جو شخص اپنے ضلع کا چیئرمین بننے کااہل نہیں تھا اس کے ہاتھ میں ملک کا سب سے بڑا صوبہ تھمادیا۔
کہتے ہیں کرپشن نہیں ہونے دوں گا اور ملک میں انصاف کا بول بالا کروں گا لیکن لوگ محو حیرت ہیں کہ اگر کرپشن نہیں ہورہی اور انصاف کا پلڑا برابر ہے تو ہر طرف مظوموں کی چخ و پکار کیوں ہے اور انصاف کا “احتسابی” پہیہ صرف ایک جانب کیوں گھوم رہا ہے ؟
ہم نہیں کچھ لوگ خاں صاحب کو “انوکھا لاڈلا” کہتے ہیں اور اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ “لاڈلے” نے ایسی فرمائش کردی ہے جس کو پورا کرنا کپتان کو لاڈلا بنانے والوں کے لیے مشکل ہورہا ہے۔گانوں کا انوکھا لاڈلا تو بیچارا “کھیلن کے لیے صرف چاند” مانگتا تھا لیکن یہاں لگتا ہے کہ بات چاند سے بھی آگے بڑھ کر تمام ستاروں سمیت آسمان تک پہنچ گئی ہے اور یقیناؐ اتنا کچھ دینا “دینے” والوں کے لیےبھی ناممکن ہے۔۔
تو سوال پھر وہی پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہونے کیا جارہا ہے۔ملک کے اس اہم ترین موڑ پر جب اندرونی اور بیرونی چیلنجنز سر اٹھائے کھڑے ہیں وہاں اہنی خواہشات کی تکمیل کے لیے اداروں کو متنازع بنانا کس قدر نقصان دہ ہوسکتا ہے اس کاشاید موجودہ حکمرانوں کا اندازہ نہیں ہے۔ملک میں جیسی بھی لولی لنگڑی جمہوریت ہے اس کا رہنا ہی ہمارے لیے سود مند ثابت ہوگا لیکن نظام کے ساتھ کھلواڑ ہمیں مزید پیچھے لے جاسکتا ہے۔فیصلے اپنی ذات کو دیکھ کر نہیں ملک کے مفادات کو دیکھ کر کیا جانا لازمی ہیں لیکن اگر کسی کے خواہشات کے گھوڑے بے لگام ہوگئے ہیں تو اسے یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ بے جا خواہشات سے تنگ آکر ایک وقت میں “ماں بھی بچے کو تھپڑ رسید کردیتی ہے”اور ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ بات اس نہج تک نہیں پہنچے گی۔۔(شعیب صدیقی)۔۔