تحریر: ایاز امیر
ٹی وی پہ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے پردے کی فضیلت بیان کی ہے۔ اُن کا کہنا درست لیکن کچھ اور حقائق بھی ذہن میں رکھے جاسکتے ہیں۔ کمیونسٹ روس کے کچھ حالات دیکھنے کا مجھے ذاتی طور پہ موقع ملا جب جوانی میں میری پوسٹنگ ماسکو میں ہوئی۔ اُس معاشرے میں بہت سی کمزوریاں تھیں لیکن ایک حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں تھی کہ ریپ جیسی واردات کا وہاں تصور کرنا بھی محال تھا۔ رات گئے جب میں خود آوارہ گردی کررہا ہوتا تو میرے مشاہدے میں آتا کہ اکیلی لڑکیاں گھوم رہی ہیں، انڈر گراؤنڈ ٹرین یا میٹرو پہ سفر کررہی ہیں، اور انہیں کوئی فکر نہیں کہ کسی کی جرأت ہو کہ اُن کے ساتھ کچھ ہوجائے۔ ظاہر ہے وہاں پردے نام کی کوئی چیز نہیں تھی اور روس میں ویسے بھی بہت خوبصورتی ہے لیکن معاشرے پہ ریاست کا اتنا سخت کنٹرول تھا کہ ایسی واردات کا کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ شراب نوشی وہاں عام تھی اور روس شراب نوشی کیلئے مشہور بھی ہے لیکن یہ عجیب منظر میں دیکھتا تھاکہ نشے میں دھت انسان غل غپاڑا نہ کرتے۔ کمیونزم کی سختی نے اُس معاشرے کی نفسیات بدل دی تھی۔ آج روس کی حالت مختلف ہے لیکن یہ الگ کہانی ہے۔
آج کل کے کیوبا میں مکمل جنسی آزادی ہے، یعنی اپنی مرضی سے ایک دوسرے کے ساتھ کوئی پھر رہا ہو تو کوئی آنکھ نہیں اٹھائے گا۔ کیوبا کے لوگوں میں بھی ذاتی کشش انتہا کی ہے لیکن وہاں بھی کوئی ریپ کا نہیں سوچ سکتا کیونکہ ریاست کا معاشرے پہ کنٹرول اتنا سخت ہے۔
اِس کے برعکس افغانستان جیسے ملک میں پردے کی پابندی بہت سخت ہے لیکن جب روسی فوج کے انخلا کے بعد مجاہدین کی حکومت بنی تو نوجوان لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی کہانیاں زبان زدِ عام تھیں۔ اُس وقت کے افغانستان میں نوعمر اور خوبرو لڑکے کیا کرتے؟ اپنی حفاظت کیلئے کیا وہ پردہ کرنا شروع کردیتے؟ جب طالبان آئے انہوں نے اس لعنت کی سختی سے بیخ کنی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایسی وارداتیں ختم ہوگئیں۔ طالبان کے بارے میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے لیکن معاشرے پہ کنٹرول اُن کا مکمل تھا اور اُن کے ہوتے ہوئے جہاں اچھی چیزوں پہ بھی پابندی لگ گئی وہاں جنسی زیادتی یا تشدد کاکوئی سوچ نہیں سکتا تھا۔
جہاں تک ہمارے معاشرے کا تعلق ہے یہاں بہت حد تک پردے کی پابندی کی جاتی ہے۔ عورتیں مکمل برقعہ نہ بھی پہنیں تو سر ڈھانپتی ہیں اور حالیہ سالوں میں یہ روایت پھیل چکی ہے کہ پبلک جگہوں پہ آئیں تو خواتین منہ بھی اپنا ڈھانپ لیتی ہیں لیکن کیا ایسی روایات کے باوجود یہاں جنسی زیادتی کے واقعات کا خاتمہ ہو گیا ہے؟ دیہات ہمارے نہایت ہی کنزرویٹو ہیں۔۔ وہاں بغیر بانہوں یا آدھی بانہوں کی قمیصیں خواتین یا نوجوان لڑکیاں نہیں پہنتیں‘ لیکن ریپ کے واقعات پھر بھی ہو جاتے ہیں اور جسے ہم پنجابی میں ‘اُدھالا‘ کہتے ہیں‘ جہاں لڑکی کو زبردستی آپ اٹھا کے لے جائیں ایسے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ میرے اپنے گاؤں بھگوال میں کچھ عرصہ قبل نوعمر لڑکوں کے ساتھ بہت وارداتیں ہونے لگی تھیں۔ جب کچھ پکڑ دھکڑ ہوئی اور ایک آدھ کیس میں سزا بھی ہوئی تو ایسی وارداتوں پہ کچھ کنٹرول ہونے لگا۔
پردہ ہی بے راہ روی کا حل ہوتا تو اِس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے‘ لیکن پاکستانی معاشرے کے بارے میں غیروں کا بھی مشاہدہ ہے کہ لڑکی یا عورت باپردہ بھی ہو تو مرد حضرات گھور گھور کردیکھنے سے باز نہیں آتے۔ بازار سے برقعہ پوش خاتون گزر جائے تو کیا دکاندار کیا راہ گیر‘ آنکھوں سے اوپر سے نیچے تک اُس کا ماپ لینے لگ جاتے ہیں۔ گزرے زمانے کے کابل میں لڑکیاں اور خواتین سکرٹیں پہن کر باہر نکلتی تھیں۔ میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ سکرٹ پہنے خواتین بازار سے گزر رہی ہیں اور چھابڑی والا جو زمین پہ بیٹھا ہوا ہے وہ اُن کی طرف آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھتا تھا‘ اِس لئے کہ سکرٹ پہننے والی خواتین کا بازاروں میں آنا کوئی عجیب بات نہیں رہی تھی۔ پاکستانی مردوں کا رویہ اِس لئے مختلف ہے کہ یہاں عورتوں کا پبلک جگہوں پہ آنا ایک عجوبہ لگتا ہے۔ اِس سے مختلف بات یہ کہ آپ اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے بڑے ہوٹلوں میں جائیں وہاں بڑی ماڈرن قسم کی خواتین کا آنا جانا رہتا ہے۔ بغیر بازو قمیصیں اور ٹائٹ قسم کی جینز تو ایسی جگہوں پہ عام سی چیزیں ہیں۔ ایسی جگہوں پہ ویٹر یا ملازم حضرات خواتین کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے نہیں تکتے کیونکہ اُن کیلئے یہ روزمرہ کے مناظر ہوتے ہیں۔ مطلب یہ کہ پابندیوں سے ذہنوں میں سے عریانی اور فحاشی کے تصورات نہیں جاتے۔ جہاں زیادہ پابندیاں ہوں گی وہاں لوگوں کی نفسیاتی حالت عجیب سی ہو جاتی ہے۔ انیس سو پچانوے میں مجھے آکسفورڈ جانے کا موقع ملا اور ایک فیلوشپ کے حوالے سے میں وہاں تین ماہ رہا۔ اپریل کے مہینے میں اچانک ایک گرمی کی لہر آئی اور آناً فاناً یوں لگا کہ آکسفورڈ کی نوجوان آبادی نے اپنے آدھے کپڑے اتار دیئے ہیں۔ آکسفورڈ میں درجنوں کالج ہیں اور وہاں کی طالب علم آبادی، کیا لڑکے کیا لڑکیاں، نیم برہنہ حالت میں سائیکلوں پہ اِدھر اُدھر جانے میں مصروف رہتی۔ لیکن میں نے یہ بھی دیکھا کہ لڑکی سائیکل پہ گزری ہے اور اُسے ایک شخص بھی نہیں دیکھ رہا۔ پورے آکسفورڈ شہر میں اگر کوئی آنکھیں چرا چرا کے سائیکل پہ سوار لڑکیوں کو دیکھ رہا تھا تو وہ میں تھا۔ وہاں کے مکینوں کیلئے ایسے مناظر عجیب نہ تھے لیکن جہاں سے میں آیا تھا میرے لئے تو بہت عجیب تھے۔ ایسا بھی ہوا کہ بس کے انتظار میں مرد اور خواتین، گورے اور کالے، قطار بنائے کھڑے ہیں۔ چند فٹ کے فاصلے پہ ایک نوجوان جوڑا اپنی سرگرمیوں میں مصروف تھا لیکن حرام ہے کہ قطار میں کھڑا کوئی شخص ایک نگاہ بھی اُن کی طرف ڈال رہا ہو۔ میرے سینے میں ہلچل مچ جاتی لیکن قطار میں کھڑے لوگ یا اخبار پڑھ رہے ہوتے یا آگے کی طرف ان کی نظریں ہوتیں۔ چند فٹ کے نظارے کی طرف اُن کی آنکھ نہ جاتی‘ لہٰذا وزیراعظم صاحب قوم کو کون سے سبق سکھانے کی کوشش کررہے ہیں؟ پردہ نہ کرنے کی وجہ سے وارداتیں ہوتیں تو یورپ، امریکہ، چین، روس اور لاطینی امریکہ میں سوائے ریپ اور جنسی تشدد کی داستانوں کے اور کوئی بات نہ ہوتی۔ آکسفورڈ کی اُس گرم لہر میں جو کچھ میں نے دیکھا وہاں اگرہم پاکستان کے مبلغوں کی منطق مانیں تو شہر میں صبح سے شام تک سوائے ریپ کے اور کچھ نہ ہوتا۔
معاشرے میں بیلنس ہونا چاہئے، نہ عریانی اور فحاشی نہ بے جا قدغنیں۔ میری جوان بیٹیاں ہیں، میں نہیں چاہتا کہ جسے ہم قابل اعتراض لباس سمجھتے ہیں اُس کا استعمال وہ کریں لیکن شرافت اور پاکیزگی کے نام پہ جو ہم نے پابندیاں اپنے معاشرے پہ عائدکی ہوئی ہیں اُس سے تو معاشرے کا حلیہ اور اُس کی نفسیات بدل گئی ہیں۔ پاکستانی معاشرہ کوئی نارمل معاشرہ رہ گیا ہے؟ باتیں ہم بہت اونچی کرتے ہیں لیکن ہر چیز میں دھوکہ دہی اور مکاری، ہر چیز میں ملاوٹ۔ پاکیزگی کے بجائے راج یہاں جھوٹ اور فریب کا ہے۔ بس لبادہ پاکیزگی کا اوڑھا ہوا ہے۔ غیر معاشروں میں پاکیزگی کی اتنی باتیں نہیں ہوتیں، وعظ اور نصیحت کی روایت اتنی نہیں ہوتی، لیکن انہوں نے اپنے راستے درست کئے ہوئے ہیں۔ اِسی لئے دنیا پہ حاکمیت وہ قومیں کررہی ہیں نہ کہ ہم۔ ہمارا کام تو مانگے تانگے پہ گزارہ کرنا ہے اور ہمارا کشکول لوہے سے بھی زیادہ مضبوط ہے۔ کبھی ٹوٹنے کا نام نہیں لیتا۔ (بشکریہ دنیا)۔۔