تحریر:سید شعیب الدین احمد ( چاچو )
اللہ کا شکر ہے ” دیس نکالے کا نہیں گھر نکالے ” کا وقت ختم ہوا اور 42 گھنٹوں کے بعد پہلے بجلی اور پھر لوٹ کے بدھو گھر کو آئے ۔ میری سڑک پار بیٹی کا خصوصی شکریہ اس نے میری ” غیر حاضری ” میں مجھے باخبر رکھا اور یہ نوید بھی سنائی کہ انکل اب آپ واپس آ سکتے ہیں ۔ مگر رات ایک بجے جب ہم گھر پہنچے تو تباہی کا منظر سامنے تھا ۔ میری ٫ میری اہلیہ اور بیٹے ، بہو کی آنکھوں کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ ہمارا گھر ہے یا کسی دشمن نے ” کاٹا کاٹی ” کی ہے ۔ پلاسٹک سے ڈھکی بجلی کی دو تاریں جنہیں میرے گھر پر سایہ رکھنے والے بکائن کے درخت کے درمیان سے آسانی سے گزارا جا سکتا تھا نجانے کیوں برباد کر کے کاٹ کر رکھ دیا گیا تھا ۔ درخت کی اس بری طرح ” کٹائی یا تباہی ” کی گئی اور میرے گھر کے صحن میں درخت کے تنے اور شاخوں کے اتنے ٹکڑے گرائے گئے کہ گھر کے اندر لگا لیموں کا درخت ٹوٹ گیا ، گھر کے باہر گرین بیلٹ میں تباہی کا منظر تھا ۔ سمجھ نہیں ا رہا تھا کہ یہ وہی گھر ہے جسے میں 28 گھنٹے پہلے چھوڑ کر گیا تھا یا یہ کوئی اور جگہ ہے جہاں پر میٹروپولیٹن کارپوریشن نے تجاوزات کے خلاف کاروائی کی ہے ۔ درخت کاٹنے کی کیا وجہ تھی ( بجلی کی جن تاروں کو درخت کے درمیان سے بآسانی گزارا جاسکتا تھا ان کیلئے یہ کٹائی کیوں کی گئی ) ۔ مجھے کون بتائے گا ؟ تو میں اب پوچھ رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ کالونی کی انتظامیہ مجھے یہ بتائے گی کہ جو تاریں اس نے درخت کاٹنے کے بعد درخت کے کٹے ہوئے تنے کے اوپر سے گزاریں کیا یہ درخت کے درمیان سے گزاری نہیں جا سکتی تھیں ۔ مجھے ، میرے بچوں کو اور میرے گھر کو اس درخت کے سائے سے کیوں محروم کیا گیا جس کی شاخیں کسی کو نقصان نہیں پہنچا رہی تھیں ۔ اب تو لگتا ہے یہ واقعی صحافی کالونی نہیں بلکہ صحافی پنڈ ہے ، لیکن پنڈ میں تو کوئی کسی کا درخت نہیں کاٹا کرتا تو پھر میں اسے کیا کہوں ۔ درخت کاٹنے والے ان لوگوں کو کہتا ہوں مجھے اس کالونی کا نیا نام بتا دیں جہاں کوئی قانون نہیں ہے ، جہاں آج بھی ہر قانون کو پامال کرکے ایسے گھر تعمیر ہو رہے ہیں جن میں کسی قاعدے قانون کی پروا نہیں کی جاتی اور ہمسایہ کے حقوق کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا ۔(سید شعیب الدین احمد چاچو)۔۔