تحریر: انصار عباسی
ماضی قریب میں مجھے دو مختلف اہم ٹی وی چینلز سے تعلق رکھنے والی دو نامور خواتین ٹی وی اینکر پرسنز نے الگ الگ ملاقات میں بتایا کہ وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اسکارف پہننا چاہتی ہیں لیکن متعلقہ ٹی وی چینلز کی انتظامیہ نے انہیں ایسا کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے اپنے ٹاک شوز کے دوران نہ سر ڈھانپ سکتی ہیں اور نہ ہی اسکارف لے کر پروگرام کر سکتی ہیں۔ یعنی اگر نوکری کرنی ہے اور ٹی وی ٹاک شوز کی میزبانی کرنی ہے تو حجاب، اسکارف یادوپٹہ نہیں چلے گا۔ ان میں سے ایک خاتون اینکر بہت پریشان دکھائی دیں اور کہنے لگیں میں تو اب میڈیا میں نوکری ہی نہیں کرنا چاہتی اور کوشش ہے کہ درس و تدریس کے شعبہ کو جوائن کر لوں۔ اُن کا کہنا تھا کہ نوکری اُن کی مجبوری ہے کیونکہ انہیں اپنے گھر اور بچوں کے اخراجات کے لیے پیسےکی ضرورت ہے اس لیے جب تک کوئی دوسری نوکری نہیں ملتی مجبوراً میڈیا کی نوکری کرنی پڑے گی۔ نجانے اور کتنی خواتین کو میڈیا اور دوسرے کئی شعبوں میں ان حالات کا سامنا ایک ایسے ملک میں ہے جو اسلام کے نام پر بنا لیکن وہاں اسلامی لباس پہننے پر نوکری پیشہ خواتین کو روکا جاتا ہے۔ ایسا فرانس یا مغرب کے کسی دوسرے ملک میں ہو تو دنیا بھر میں شور مچتا ہے لیکن افسوس کہ اگر پاکستان کے میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کو بھی ان حالات کا سامنا ہے تو پھر اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں اس غیر قانونی، غیر آئینی اور سب سے اہم غیر اسلامی اقدام کے خلاف کون آواز اُٹھائے گا۔ ایسا نہیں کہ میڈیا میں کام کرنے والی ہر خاتون کو ان حالات کا سامنا ہے۔ عموماً میڈیا میں خواتین کو ماڈلز، فیشن اور دیکھنے والوں کو attract کرنے کے لیے شو پیس کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو میری نظر میں خواتین کا بدترین استحصال ہے ، اُن کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ اُن کی یہ توہین ہے جس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ ایسا بھی نہیں کہ میڈیا میں ہر کسی کی ایسی سوچ ہو۔ یہاں ایسی اینکر پرسنز ہیں جنہوں نے خالص اسلامی وجوہات کی بنا پر سر ڈھانپنا شروع کیا اور اُنہیں اُن کی مینجمنٹ نے ایسا کرنے سے نہیں روکا۔ مثال کے طور پر نامور اینکر پرسن مہر عباسی نے جب اپنے شو میں دوپٹہ لینا شروع کیا تو اُنہیں کسی ایسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مہر عباسی نے اس تبدیلی پر سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا یہ پیغام دیا: لوگ پوچھ رہے ہیں میں نے دوپٹہ کیوں لینا شروع کر دیا۔ بہت پڑھنے اور سمجھنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے، یہ ایک لمبا سفر تھا، مجھ پر کسی نے دوپٹہ مسلط نہیں کیا یہ میری اپنی مرضی ہے، سادہ جواب یہ ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔
مہر عباسی نے بہت خوبصورت بات کی ’’سادہ جواب یہ ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے‘‘۔ اب جو اللہ کے حکم کی تعمیل کرنا چاہیں اُسے ایسا کرنے سے میڈیا ہی اگر روکے گا تو پھر ایسی خواتین کے حق کے لیے کون آواز اٹھائے گا۔ ایک اور خاتون اینکر پرسن نادیہ مرزا جو اسکارف لے کر اپنا ٹاک شو کرتی ہیں اُنہوں نے اپنے ایک حالیہ ٹیوٹ میں لکھا: ــ’’میرا حجاب لینے کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ جیسے نماز آپ کو برائیوں سے روکتی ہے ایسے ہی حجاب آپ کو احساس دلاتا ہے کہ اس کی عزت اور حرمت آپ کی ذمہ داری ہے۔‘‘
میں پہلے بھی یہ بات اپنے ایک کالم میں لکھ چکا ہوں کہ ایک بار ایک ٹی وی وہ چینل نے مجھے ایک ٹاک شو دینے کی بات کی تو مجھے کہا کہ آپ کے ساتھ ایک خاتون میزبان کو بھی پروگرام میں رکھا جائے گا۔ میں نے وجہ پوچھی کہ خاتون کیوں تو مجھ سے کہا گیا اس لیے کہ اس سے ریٹنگ بہتر آتی ہے یعنی زیادہ لوگ دیکھتے ہیں۔ میں تو ٹی وی کا صحافی نہیں نہ ہی کبھی مجھے ٹی وی اینکر بننے کا شوق رہا لیکن مجھے یہ بات سن کر بہت دکھ ہوا ۔ ایک بڑے ٹی وی چینل کے اہم ذمہ دار سے میں نے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اُن کے چینل میں کوئی ایک بھی خاتون اینکر پرسن یا نیوز ریڈر ایسی نہیں جو سرڈھانپتی ہو، پردہ کرتی ہو یا حجاب لیتی ہو۔ میں نے سوال کیا کہ سر ڈھانپنے والی، پردہ کرنے والی اور حجاب لینے والی کسی خاتون میں اُنہوں نے قابلیت نہیں دیکھی کہ وہ خبریں پڑھے یا کسی پروگرام کی میزبانی کرے۔ ٹی وی چینل کے ذمہ دار نے کہا کہ ہاں آپ ٹھیک بات کر رہے ہیں اور وعدہ بھی کیا کہ تبدیلی لائی جائے گی لیکن اس بات کو کئی ماہ گزر گئے لیکن اُس چینل میں ایسی کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ اس معاملہ کو پاکستان براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن، صحافتی تنظیموں، حکومت اور پارلیمنٹ کو اُٹھانا چاہیے تاکہ جو نوکری پیشہ خاتون چاہے اُس کا کسی بھی شعبہ سے تعلق ہو اگر وہ پردہ کرنا چاہتی ہے، سر ڈھانپنا یا حجاب کرنا چاہتی ہے تو اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔(بشکریہ جنگ)۔۔