رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیڈریشن بمقابلہ انصار عباسی کیس میں کچھ میڈیا اداروں کی جانب سے غلط رپورٹنگ کا نوٹس لیتے ہوئے عدالتی کارروائی کی غلط رپورٹنگ پر وضاحت جاری کرتے ہوئے بیٹ رپورٹرز کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کارروائی کی بلا کم وکاست اور درست رپورٹنگ کریں ، کسی بھی خبر رساں ادارے کا نام لیے بغیر، رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے 15 دسمبر کو ایک وضاحت جاری کی، جس میں کہا گیا ہے کہ”مجاز اتھارٹی کے نوٹس میں آیا ہے کہ پریس کے کچھ حصے اسلام آباد ہائی کورٹ کی عدالتی کارروائی کی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں غلط رپورٹنگ کر رہے ہیں۔” اس لیے مجاز اتھارٹی یہ مشورہ دیتے ہوئے خوشی محسوس کرتی ہے کہ تمام بیٹ رپورٹرز کیلئے حقائق کو جانچنے اور غلط رپورٹنگ سے بچنے کی ضرورت ہے، اور ہمیشہ عدالتی کارروائی کو منصفانہ اور درست طریقے سے رپورٹ کیا جائے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ بیٹ رپورٹرز کو صحافیوں کی پیشہ ورانہ اخلاقیات اور ضابطہ اخلاق کے طے شدہ معیارات پر عمل کرنا چاہیے۔ میڈیا حلقوں کی طرف سے غلط رپورٹنگ اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو مس کوٹ کرنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے اسلام آباد ہائی کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کو طلب کیااور غلط رپورٹنگ کے بارے میں پوچھا۔ رپورٹرز ایسوسی ایشن نے مجاز اتھارٹی کو یقین دلایا کہ انہوں نے درست رپورٹنگ کی ہے اور اگر کسی نجی ٹی وی چینل نے کوئی غلط رپورٹ نشر کی ہے تو مجاز اتھارٹی کو غلط رپورٹنگ کرنے والوں کے خلاف مناسب کارروائی کرنی چاہئے۔قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اے آر وائی کی جھوٹی رپورٹنگ کے اسکرین شاٹ کے ساتھ ٹوئٹ کیا اور کہا کہ رانا شمیم کے توہین عدالت کیس میں سینئر صحافی انصار عباسی کے بارے میں کچھ ریمارکس چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سے منسوب کیے گئے جو کبھی بھی نہیں کہے گئے ۔ حتیٰ کہ معزز عدالت نے بھی اس کی ساکھ پر شک نہیں کیا۔ توہین عدالت کیس میں اس قسم کی رپورٹنگ کا کوئی مطلب نہیں ۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے بیان کے بعد سینئر صحافی اسد ملک نے ٹویٹ کیا، “اے آر وائی کی غلط رپورٹنگ میں موجود غلطیوں کی نشاندہی کرنے اور وارننگ جاری کرنے کے بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے تمام بیٹ رپورٹرز کو ذمہ دار قرار دیا،انہوں نے حلف نامے کے بارے میں ایک خبر پڑھنے کے بعد ایک نوٹ لکھا تھا، جس کے بعد جنگ گروپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی گئی تھی۔” بہت سے دوسرے بیٹ رپورٹرز جو اسلام آباد ہائیکورٹ کی کوریج کر رہے ہیں، انہوں نے بھی غلط رپورٹنگ کو اجاگر کیا ہے۔ صحافی وسیم عباسی نے اپنے سوشل میڈیا پر نیٹ ورکنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اس چینل کا اسکرین شاٹ پوسٹ کیا اور کہا کہ اگر اس نے اسے نشر کیا ہے تو کیا یہ عدالت کی توہین نہیں ہے، میں عدالت میں موجود تھا۔ چیف جسٹس نے انصار عباسی کی خبر کو منسوب کرتے وقت یہ بالکل نہیں کہا۔ انہوں نے اس کی بجائے ایک اور تناظر میں کہا کہ جھوٹ کو سچ میں تبدیل کیا جا رہا ہے اور سچ کو بیانیہ کی تعمیر کے ذریعے جھوٹ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔