تحریر: خرم علی عمران
پیارےمیڈیا۔ میری جان کیا حال ہیں؟ کیسے ہو امید ہے بہت سوں کی خیریت خطرے میں ڈال کر خیریت سے ہی ہوگے۔ پیارے میڈیا تمھاری اولادوں نے یعنی باجی الیکٹرانک اور سوشل بھیا نے تو یار تہلکہ مچا رکھا ہے اور ایک عالم کو دیوانہ بنا رکھا ہے لیکن پیارے میڈیا سنگ بھی تو کچھ لوگوں نے اٹھا رکھا ہے بلکہ رکھے ہیں اور پیارے میڈیا تمھارے کارکن ورکر اورقلمی و الیکٹرانی سے یہ مزدور بہت پریشان سے ہیں یار کچھ خیال کرو ان بے چاروں کا۔ انہیں خوش رکھو گے تو ترقی ملے گی ورنہ تم صرف سرکاری بھونپو اور درباری طفیلی بن کر رہ جاؤ گے ہاں بتائے دے رہا ہوں میں!
یار رمضان آنے والے ہیں تو اب تو بے چارے ورکروں کو کوئی خوشی سیلری یا بونس کی شکل میں ہی اپنے سرپرستوں اور مالکان سے کہہ کر دلوادو کہ یہ غریب صحافی بھی کچھ خوش خوشی رمضان گزار سکیں،عید منا سکیں۔ یہ تو ماہ مبارک ہے اور سنا ہے کہ اس ماہ مبارک میں لوگوں کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے قدرت کی جانب سے ، مگر پیارے میڈیا تمھاری طرف سے تو تمھارے اداروں کے معاشی منیجرز مالکان کا نفع بڑھانے اور اپنی لاکھوں روپے کی تنخواہوں اور مراعات کو کو بچانے کے لئے خوب کٹوتیوں کی قینچیاں چلا رہے اور برطرفیوں کے ہتھوڑے غریب کارکنان پر مار رہے ہیں ہیں۔ ایسا تو نہ کرو یار۔ رمضان میں تو بڑے سے بڑا شوم اور کنجوس بھی نرم دل اور سخی ہوجاتا ہے مگر یہ سرمایہ دارانہ منافع کے پجاری سنگ دل کے سنگ دل ہی رہتے ہیں پتہ نہیں کیوں۔ خیال کرو کچھ غریبوں کا ۔ ابے! ہنری فورڈ کا نام تو سنا ہوگا تم نے یار! ابے وہی یار فورڈ کمپنی کا مالک اور اسے امریکا میں پہلا ارب پتی بھی مانا جاتا ہے۔ ایک غریب کی حیثیت سے پیدا ہوا تھا اور جب مرا تو اربوں ڈالر اس کے پاس تھے موٹر وہیکلز کی صنعت کا بادشاہ کہلایا تھا وہ، تو جب بستر مرگ پر تھا تو کسی نے اس سے پوچھا کہ جناب عالی فورڈ صاحب آپ اپنی فقید المثال کامیابی کا راز بس بنیادی راز تو بتا جائیں تو اس نے پتہ ہے میرے میڈیا کیا کہا تھا اس نے کہا یوں تو اس سوال کے بہت سے جواب ہو سکتے ہیں جیسے لگن،محنت،استقلال، مشکلات میں ڈٹے رہنا اور لگاتار جد و جہد ناکامیوں سے نہ گبھرانا وغیرہ مگر اصل بات یہ ہے کہ میں نے ہمیشہ اپنے ورکروں کو خوش رکھا اوراپنے کارکنوں سے ہمیشہ باپ جیسا شفقت والا رویہ رکھا ،یہی میری کامیابی کا سب سے بڑا راز اور گر ہے۔
تو پیارے میڈیا اپنے سرپرستان و مالکان کی توجہ ذرا اس جانب مبذول کراؤ کہ اپنے کارکنان کا مزید خیال کریں۔ یہ تنخواہوں پر چلنے والے اور ہینڈ ٹو ماؤتھ زندگی گزرنے والے لوگ ہیں تمھارے سرپرستان کئی کئی مہینے تنخواہ نہیں دیتے،دھمکی آمیز رویئے اور تحقیر و حقارت کا معاملہ ان کے ساتھ کرتے ہیں کیا یہ مناسب ہے؟ اگر نہیں تو انہیں سمجھاؤ کہ غریب کے دکھ کا احساس کریں ان کے کام آئیں اور اگر زیادہ نہیں دے سکتے تو کم از کم تنخواہ اور بونس جو ان کا بنیادی حق ہے وہ تو بروقت ادا کردیاکریں۔ورنہ پھر پیارے میڈیا سنا ہے کہ مظلوم کی آہ چاہے مسلم ہو کہ غیر مسلم عرش کو ہلا دیتی ہے۔ خود سوچو نا یار ایک تنخواہ دار جسے اپنا پورا گھر اسی تنخواہ پر چلانا ہو اسے آنندہ ماہ کے وعدے پر ٹرخا دیا جائے اور وہ دبا دبا سا احتجاج کرنے کی کوشش کرے تو حقارت اور بے رخی سے کہہ دیا جائے کہ میاں کوئی اور نوکری ڈھونڈ لو پھر یہاں تو ایسا ہی چلے گا تو پھر کیا گزرتی ہوگی اس تنخواہ دار کے دل پر ۔کوئی نہ کوئی آہ تو نکلتی ہوگی نا۔ تو ڈرو ذرا مظلوم مزدوروں کی آہ سے ورنہ پھر مکافات کا چرخہ اگر چل پڑا تو پھر وہ بڑے بڑے فرعونوں اور قارونوں کو بڑا باریک پیستا ہے۔
اچھا یار سوری تمھارا زیادہ ٹائم لے لیا بس وہ کچھ جذباتی ہوگیا تھا ذرا۔ تم تو ویسے بھی آج کل کچھ زیادہ ہی مصروف ہوگے نا کہ رمضان شریف آنے والے ہیں اور انہیں بیچنا بھی ہے کہ بڑا منافع بخش ایونٹ ہوتا ہے نا یہ تو۔ پورا مہینہ خوب رونق لگاکرے گی خاص پر پر چینلز پر۔ آہ رمضان،واہ رمضان،جنوں رمضان،عشق رمضان نامی وغیرہ جیسی بہت ساری رمضان ٹرانسمشن بن رہی ہونگی جن میں مولوی نما حضرات کے ساتھ ساتھ ہمارے مشہور و معروف دلکش و دلربا فنکار اور فنکارائیں رمضان شریف اور اسکے بعد ملنے والے چیکس کی محبت میں خوب رونق لگائیں گے اسکرینوں پر اور رمضان کی راتیں جو ذکرتلاوت عبادت دعاؤں اور اللہ سے تعلق بڑھانے کی راتیں ہوتی ہیں ان میں یہ سب مشہورمشہور لوگ دین سکھایا کرتے نظر آئیں گے۔ خدا خیر کرے۔ چلو خیر یہ تم اور وہ جانو اور تمھارا کام بھیااور خیر تم لگے رہو میڈیا بھائی اس کام سے مگر پیارے بھائی اپنے منافع خور مالکان و دیدہ و نادیدہ سرپرستان سے کہو کہ ورکرز کا خیال کرلیں یار اس سے پہلے کہ کہیں دیر ہوجائے۔ اچھا اب اجازت دو۔ پھر ملیں گے تو مزید باتیں کریں گے اگر اسے باتیں کرنا کہا جاسکے بجائے ہذیانی بلاگ کے۔(خرم علی عمران۔)