تحریر: حسن نثار
چند ہفتے پہلے ماضی کی پنجابی فلموں کا بانکپن فردوس رخصت ہوئی۔ اپنے وقت کی سپر سٹار فردوس جس کا پیدائشی نام پروین تھا اور اپنی دراز قامتی کی وجہ سے ’’پینو پوڑی‘‘ کہلاتی تھی۔ پنجابی زبان میں ’’پوڑی‘‘ سیڑھی کو کہتے ہیں۔ یہ فردوس پہلے ’’پنجابی فلموں کے دلیپ کمار‘‘ اکمل کے ساتھ سپر ہٹ ہوئی۔ اکمل کیریکٹر ایکٹر اجمل کا بھائی تھا۔ جو اتفاقاً اداکار بنا اور پھر سپر سٹار کے سٹیٹس تک پہنچ گیا۔ بہت سے فلم صحافیوں نے لکھا کہ اکمل فردوس کی جستجو میں ہی مارا گیا تھا لیکن یہ اک اور کہانی ہے۔
فی الحال ہم صرف اس بات پر فوکس کرتے ہیں کہ چند ہفتے پہلے وہ فردوس جنت الفردوس کی طرف روانہ ہوئی جس کی زندگی کا نمایاں ترین کارنامہ یہ تھا کہ اس کے حسن و جمال نے اعجاز نامی ایک ہینڈسم اور مقبول ہیرو کو ملکۂ ترنم نور جہاں جیسی لیجنڈ سے چھین لیا جو نور جہاں کا بے حد چہیتا شوہر تھا۔ تازہ ترین تکلیف دہ خبر یہ کہ اپنے وقت کا ٹاپ سٹار اعجاز درانی بھی فردوس کے پیچھے پیچھے روانہ ہو گیا۔ ان دونوں کی ’’ہیر رانجھا‘‘ برصغیر کی سینما ہسٹری میں کوہ نور ہیرے کی سی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ یہاں یعنی برصغیر میں ’’ہیر رانجھا‘‘ پر بیشمار فلمیں بنیں لیکن فردوس اعجاز کی ’’ہیر رانجھا‘‘ لا جواب و لازوال ہے جسے احمد راہی کے گیتوں اور خواجہ خورشید انور کے میوزک نے امر کر دیا۔
ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ اعجاز کی شادی اپنے وقت کا بہت بڑا فلمی دھماکہ تھا جس کی تفصیل سینئر صحافی فلمساز، ہدایت کار کہانی نویس جناب علی سفیان آفاقی مرحوم نے اپنی کتاب ’’فلمی الف لیلیٰ‘‘ میں لکھی ہے جو انتہائی دلچسپ لیکن ذرا طویل ہے اس لئے اپنے لفظوں میں بیان کروں گا۔ آفاقی مرحوم کو معتبر ذرائع سے علم ہوا کہ نور جہاں اور اعجاز کا افیئر عروج پر ہے اور اعجاز مین بلیوارڈ گلبرگ پر اپنی گاڑی مسرت نذیر کے گھر کے باہر پارک کر کے شاموں کو ملکہ ترنم سے پیدل جا کر ملتا ہے۔ آفاقی صاحب مرحوم نے اعجاز سے پوچھا تو وہ صاف مکر گیا۔ چند دن مزید گزرے کہ کراچی سے ہفت روزہ ’’نگار‘‘ کے مالک و مدیر الیاس رشیدی صاحب لاہور آئے۔ انہوں نے آفاقی صاحب کو بتایا کہ نور جہاں اور اعجاز کی شادی ہو گئی ہے اور وہ اسی سلسلہ میں لاہور آئے تھے۔ آفاقی صاحب لکھتے ہیں ’’الیاس بھائی نے بتایا کہ میڈم بالکل بدل گئی ہیں۔ نمازیں پڑھتی ہیں۔ تلاوت کرتی ہیں۔ فی الحال گانے گائیں گی لیکن اگر اعجاز نے کہا تو گلوکاری بھی چھوڑ دیں گی‘‘۔
بہرحال ہوا یہ کہ چند دن بعد اک عجیب حادثہ کے نتیجہ میں اعجاز نور جہاں شادی کا راز فاش ہو گیا۔ ہوا یوں کے اس زمانہ کے مقبول ترین فلمی سٹل فوٹو گرافر معراج کو شادی کی تصویریں بنانے کے لئے بلایا گیا کیونکہ دولہا دلہن دونوں کو سٹل فوٹو گرافر معراج اور منظور پر پورا بھروسہ تھا۔ ان دونوں کا ’’گرین سٹوڈیو‘‘مال روڈ پر کافی ہائوس کے نزدیک تھا جہاں سرشام فلمی دنیا کے لوگ اکٹھے ہو کر جام و مینا سے شغل کیا کرتے تھے اور یہ سٹوڈیو کسی کلب کی سی حیثیت اختیار کرجاتا تھا۔ معراج اور منظور نے شادی کی فلم ڈیولپ کر کے خشک کرنے کے لئے لٹکا دی جو روٹین کی بات تھی۔ اتفاق سے مشہور کریکٹر ایکٹر ہمالیہ والا پہنچ گئے۔ ایک دو ڈرنک لینے کے بعد ہمالیہ والا کی نظر نیگٹو پر پڑی جس میں نور جہاں دلہن بنی بیٹھی تھی پھر دولہا کے روپ میں اعجاز بھی نظر آ گیا۔ ہمالیہ والا گھاگ سینئر اداکار تھے۔ دماغ پر زور ڈالا کہ شاید کوئی فلمی تصویر ہو لیکن نہیں ۔۔۔ہمالیہ والا کو یقین ہو گیا کہ تصویریں اصلی ہیں سو فوراً اٹھے اور سیدھے ایورنیو سٹوڈیو پہنچ کر دوستوں کو بتا دیا۔ بات جنگل کی آگ سے بھی تیز رفتار سے پھیلی تو دھماکہ ہو گیا۔ اعجاز بھی بری طرح بوکھلا گیا اور میڈم نور جہاں کو فون پر اطلاع کر دی کہ بھانڈا پھوٹ گیا ہے اور پھر دونوں اس نتیجہ پر پہنچے کہ بات نکل ہی گئی ہے تو اس کی تصدیق کر دینی چاہئے۔ نور جہاں نے سب کو بلا لیا سو الیاس رشیدی اور آفاقی صاحب بھی اعجاز کی کار میں سوار ہو کر گلبرگ روانہ ہو گئے۔ نور جہاں کی کوٹھی پر پہنچے تو ہارن کی آواز سن کر نور جہاں سادہ سی ساڑھی میں ملبوس ننگے پائوں دوڑتی ہوئی آئی اور پھر دونوں اس وقت تک ہنسی خوشی رہتے رہے جب تک فردوس اعجاز کی زندگی میں نہیں آئی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ سچی محبت نور جہاں نے صرف اعجاز سے ہی کی تھی اور اسی لئے پہلے پہل ’’ہیر رانجھا‘‘ کے گیت گانے سے انکار کر دیا تھا لیکن پھر اس فلم کے گیت گا کر اسے لازوال بنا دیا۔ عشق ایسا تھا کہ جب اعجاز انگلینڈ میں گرفتار ہوا تو نور جہاں بے وفائی کو بھول کر اس کی مدد کے لئے انگلینڈ پہنچ گئی۔
آج نہ نور جہاں، نہ فردوس نہ اعجاز ہمارے درمیان کہ آخر پہ صرف کہانیاں ہی رہ جاتی ہیں۔ اللہ ان سب کی مغفرت فرمائے۔ کیسے لوگ تھے جن کے ناموں کے کبھی ڈنکے بجتے تھے لیکن نئی نسلیں آج ان کے ناموں سے بھی آشنا نہیں کہ یہی زندگی ہے۔ آج کی فردوسیں اور اعجاز دیکھ کر ہنسی آتی ہے اور آج کی نور جہانیں سن کر رونا آتا ہے۔
میں نے یہ کالم اعجاز، فردوس اور نور جہاں نہیں بلکہ ان زمانوں کے نام لکھا ہے جب پاکستان کی فلم انڈسٹری اپنے عروج پر تھی۔ پھر ’’گنڈاسہ‘‘ آیا اور صرف فلم انڈسٹری ہی نہیں، ہر شعبہ کے ٹکڑے کر گیا، صرف بدصورتی اور کرپشن باقی رہ گئی، ہر خوب صورت شے خواب و خیال بن گئی۔نہ ہیریں رہیں نہ رانجھے صرف کیدو ہی باقی رہ گئے۔ ونجھلیاں ٹوٹ گئیں، ٹی ٹیاں باقی رہ گئیں۔(بشکریہ جنگ)