تحریر: حماد متین۔۔
میاں آپ بہت اچھے ہیں ،اچھے رہیں گے۔ ‘‘ ، ’’نہ جانے آپ اتنے بڑے کام کیسے کرلیتے ہیں۔‘‘ ، ’’آپ کو پتا نہیں، آپ کتنے بڑے کام کر رہے ہیں۔‘‘ ، ’’میاں لگے رہو! اللہ آپ کی مدد کرے گا۔‘‘یہ وہ جملے ہیں جو اگر ایک خاص انسان کی زبان سے جاری ہوجائیں تو مخاطب کو کامیابی کا راستہ دکھا دیتے ہیں۔ ان جیسے جملوں میں چھپی شفقت مخاطب کو وہ کرنے پر مجبور کردیتی ہے جس کا وہ اہل بھی نہیں ہوتا۔ ان جملوں کو صادر کرنے والے اور مخاطب کے لیے ان میں پوشیدہ فکر رکھنے والے اس خاص انسان کو ’’معلم اوراستاد‘‘ کہتے ہیں اور ہمارے مذہب بھی کہتا ہے علم مومن کے سر کا تاج، بدن کا لباس اور روح کی خوراک ہے۔ حصول علم کا فوری اور سہل ذریعہ استاد یعنی معلم ہے۔ انسان معاشرتی حیوان ہے۔ مل جل کر رہنا اس کی مجبوری ہے اور معاشرے کو خوب سے خوب تر بنانا اس کی ضرورت ہے۔ مثالی معاشرے کے قیام کے لیے ضابطہ اخلاق کی اور ضابطہ اخلاق کے لیے علم کی اور علم کے حصول کے لیے استاد کی ضرورت ہے۔ اس لیے اسلامی معاشرے میں استاد کی اہمیت و عظمت مسلمہ ہے۔ ایک مہذب معاشرے میں استاد کو جو عزت و توقیر اور احترام و اکرام ملتا ہے وہ کسی اور فرد کے حصے میں نہیں آتا۔ استاد نسل نو کو دینی، دنیوی اور معاشرتی فرائض کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ علمی، فنی اور سائنسی علوم سے بھی روشناس کراتا ہے۔ استاد ہی کی کاوشوں، کوششوں اور رہنمائی کی بدولت نئی نسل اپنے فرائض کامل ایمانداری اور خوش اسلوبی سے ادا کرنے کے لائق بنتی ہے۔ایک متمدن اور مہذب معاشرے میں استاد یعنی معلم کی حیثیت ایک منارہ نور کی سی ہوتی ہے جس کے وجود کے ہر گوشے سے علم و عمل کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔ معاشرے کا ہر ذی شعور فرد استاد کے علم سے ہدایت اور عمل سے پختگی حاصل کرتا ہے۔معاشرتی آداب صرف کتابیں پڑھ لینے سے نہیں آتے بلکہ پڑھانے اور سکھانے والی کو موزوں شخصیت ہی آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ اس کا علم بڑھ جائے اور عمل یا کردار پختگی کے سانچے میں ڈھل جائے۔ اگر استاد نہ ہو علم ناقص اور کردار خام رہ جاتا ہے۔قوموں کی تشکیل اور تعمیر و ترقی میں استاد کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ افراد کے خام، کج اور منتشر ذہنوں کو یکسوئی مقصد کی لگن اور پختگی عطا کرنا استاد کا فرض ہے۔ ایسا صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب استاد خود بھی اپنے فن میں یکتا، مخلص اور پیکر ایثار ہو۔اقوام عالم کی تاریخ شاہد ہے کہ جن اقوام نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اعلیٰ اذہان و افکار کے حامل اساتذہ کا انتخاب کیا اور ان کی عظمت کا اعتراف کیا، زمانہ ان اقوام کی ترقی کی رفتار کو نہ روک سکا اور نہ ہی کم کر سکا۔عظمت استاد کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو گی کہ محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معلم ہونے پر فخر کیا ۔ باب علم حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے یہ کہہ کر استاد کو خراج تحسین پیش کیا کہ جس نے مجھے ایک لفظ بھی پڑھایا میں اس کا غلام ہو گیا ،چاہے وہ مجھے بیچے، آزاد کر دے یا غلام بنا کر اپنے پاس رکھے۔ کیا یہ عظمت استاد کا اعتراف نہیں کہ خلیفہ وقت ہارون الرشید کے بیٹے مامون اور امین اپنے استاد کے جوتے اٹھانے اور سیدھے کر نے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔سکند ر اعظم کا یہ قول آب زر سے لکھنے کے لائق ہے کہ میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا جبکہ میرے استاد نے مجھے پھر سے زمین سے آسماں پرپہنچا دیا ۔ جہاں معاشرے کا فرض ہے کہ اساتذہ کی تعظیم و تکریم کوئی کسر اٹھا نہ رکھے وہیں اساتذہ پر بھی لازم ہے کہ وہ خود کو پیغمبروں کے صحیح وارث اور اصل جانشین ثابت کریں۔ اساتذہ خود کو یکتا ئے علم و ہنر بنانے میں ہمہ وقت کو شاں رہیں اور اخلاق و کردار و عمل کے وہ نشان چھوڑیں کہ افراد جن پر چل کر اعلی وارفع مقاصد کی منزلوں کو چھو لیں۔۔