تحریر: رضا علی۔۔
کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میری نظر سے گزری اور یقینً آپ سب کی نظر سے بھی گزر چکی ہو گی ۔ایک ویڈیو جس میں ایک جوان( ٹین ایج ) حوا کی بیٹی ایک مشہور نجی تعلیمی ادارے میں اپنے کلاس روم میں اپنی کچھ دوستوں کے ہمراہ ایک بیہودا گانے پر سٹیج اداکاروں کو کاپی کرتے ہوئے ایک شیم لِس موڈ میں ناچ رہی ہے اور اس کے ساتھ اس کی کچھ اور لڑکیاں بھی ہیں اور ان میں سے ہی کوئی ایک یادیگر ویڈیو بھی بنا رہی ہے۔
لیکن اس ایک یادگاری وڈیو میں اس بنتِ حوا کی نادانی نے ایک با عزت باپ کو کچھ ہی لمحوں میں اتنا رسوا کر دیا کہ وہ دل کے دورے سے ذلت کی زندگی سے آزادی پا گیا۔اس وڈیو کے سبب اس صنفِ نازک کے ساتھ ساتھ اس کے پورے خاندان کو ذلت اور رسوائی کے پہاڑ کے نیچے دبنا پڑا۔ اور اب خبر ہے کہ اس نے بھی خود کشی کر لی ہے اور حرام موت کو گلے لگانا اپنی غلطی کا معاوضہ سمجھا ۔
اس ویڈیو کو دیکھتے میری زبان سے جو لفظ نکلے تھے میں انہیں لکھ نہیں سکوں گا اور یقینً ہر با عزت اور غیرت والے انسان کی زبان سے اس لڑکی کے لیے بہت سے بُرے لفظ نکلے ہوں گے کیوں کہ ہم نے غلطی ہی صرف اس کی سمجھی اور اس کو بد کردار کہہ دیا۔لیکن اگر ہم سوچیں تو اُس کی اس غلطی یا گناہ کے پیچھے کئی اور چیزیں بھی ہیں۔ کیوں کہ کوئی بھی انسان ماں کی گود سے کوئی برائی سیکھ کر نہیں آتا۔ میری نظر میں سب سے پہلے گھر کا ماحول اس کے اس جرم کا آغاز تھا کیوں کہ آج ہمارے معاشرے میں ہر گھر میں فحاشی نے ٹیکنالوجی کی صورت میں اپنی ایک خاص جگہ بنا لی ہے اور اس چیز سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ میں والدین سے گزارش کروں گا کہ خدارا اپنے گھروں سے اپنی اولاد کی پرورش ایسی کریں کہ وہ ایسے قدم اُٹھانا تو دور ایسی سوچ بھی نہ رکھیں۔۔خدارا اپنے گھروں سے فحاشی کا فروغ ختم کریں اور اپنی اولاد کو جہاں سکول بھیجنے کے لیے سرگرم ہوتے ہیں وہاں سب سے پہلے اُنہیں اسلام کی تعلیمات دیں۔بیشک گھر سب سے بڑی درس گاہ ہے خدارا اپنے گھر سے اس جیسے واقعات سے بچنے کے اقدامات شروع کریں گھروں سے برائی اور فحاشی کے سامان کو دور رکھیں اور اپنی اولاد کی ایسی تربیت کریں کہ وہ آپکا فخر بنیں اپنی اور آپکی عزت کی رکھوالی کریں۔
اور میرا یہ سوال اس ادارے سے جہاں سے اس قیامت کا آغاز ہوا کہ کیا آپ اس تعلیم کی بھاری فیسیں لے رہے ہیں؟کیا آپ اس تعلیم کا فروغ کر رہے ہیں جو روز آئے دن ایک نیا ویڈیو سکینڈل لے کر آ رہی ہے ۔تعلیم کا مطلب تو علم دینا ہے باوقار اور با غیرت سوسائٹی بنانا ہے غلط اقدام سے روکنا ہے اور با شعور بنانا ہے لوگوں کو اس قابل بنانا ہے کہ لوگ اپنا اچھا برا دیکھ سکیں۔ لیکن آپ اور صرف آپ نہیں تقریباً 80فیصد اداروں میں یہہی سکھایا جا رہا ہے۔ تعلیم کے اصل مقصد کو تعلیمی ادارے بھولتے جا رہے ہیں اور اسی وجہ سے روز کوئی “خطیب حسین” کسی “پروفیسر خالد حمید” کو جان سے مارتا نظر آ رہا ہے۔ خدارا تعلیم کے نظام کو ایسا کجیئے جس سے لوگوں میں مثبت تبدیلی آئے تا کہ طلبہ اپنے اقدار کو مدِنظر رکھنا سیکھ پائیں اور پھر سے کسی باپ کو شرمندگی سے موت نہ آ جائے۔
اس قیامت کا اگلا قدم میں اس حوا کی بیٹی کو تصور کرتا ہوں جس نے اپنی ہم جنس بہن کو ذلت اور رسوائی کے سمندر میں ٹھونسنے میں اہم کردار کیا۔اس نے یہ وڈیو بنائی اور نجانے کس غلیظ مقصد کے لیے اس کو وائیرل کیا ۔اللہ کی بندی تمہارے ایک غلط قدم نے اس لڑکی اور اس کے پورے خاندان کا جو حشر کر دیا ہے اب تم دیکھ کر شرمندگی سے دوب مرو تو بھی ان کی عزت واپس نہیں آ سکتی۔ میری ہر لڑکی سے گزارش ہے کہ موبائیل تو استعمال آپ نے کرنا ہی ہے لیکن ایسے لمحات کو کپچر کرنا اور کروانا چھوڑ دیں جس میں کوئی بھی پرائیوِیسی ہو۔اب میرا سوال ان لوگوں سے جو اس ویڈیو کو اپنا لطف سمجھ کر دوسروں تک پہنچانے میں ایسے پیش پیش رہیے ہیں جیسے کوئی ثواب کی بات ہو، کیا اگر اس لڑکی کی جگہ معذرت کے ساتھ اپکی بہن یا بیٹی ہوتی تو آپ کیا کرتے؟اگر ہم اس بات کو سوچ کر ،سب کی عزت کو اپنے گھر سے موازنہ کر لیں تو کوئی بیٹی اپنی ایک غلطی کی وجہ سے معاشرے میں ذلیل نہ ہو اور حرام موت نہ مرے، (رضا علی)۔۔