تحریر: محمد فہدخان۔۔
بیٹا ان لوگوں نے آپ کے ساتھ کیا کیا؟، انکل مجھے اپنی گود میں بٹھا رہے تھے اور پھر میری ٹانگوں کے بیچ میں انگلی ڈال رہے تھے اور پھر مجھے درد ہورہا تھا۔
چونکئیے مت یہ میں نے الفاظ اک بچی کے آپ تک پہنچائے ہیں۔ جب اک ۶ سے ۷ سال کی بچی کے ساتھ زیادتی کرنے کی کوشش کی گئ۔ اور یہ کوئ پہلا واقعہ نہیں تھا جب اک بچی کو درندگی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئ۔ اس سے پہلی بھی کئ واقعات تھے جو کہ سماج کے منہ پر کالا دھبہ تھے مگر بجائے اس کے ان واقعات سے کچھ سیکھا جاتا اور آنے والی نسلوں کی حفاظت کی جاتی ہم نے اسے بھی سیاست کی نذر کردیا۔ دوہزار بیس کے شروعاتی دو ماہ کے دوران پنجاب میں سترسے زائد زیاتی کے واقعات رپورٹ ہوئے، جب کہ دوہزارانیس میں زیادتی کے تین ہزار آٹھ سواکیاسی واقعات ہوئے۔۔ گھریلو تشدد، اغوا برائے تاوان، بچوں سے زیادتی، اور مختلف کیسز الگ ہیں۔
ہمارے سماج میں ایسے درندے اپنی گھات بٹھا رہے ہیں جو کہ آگے چل کر خدا نہ کرے میرے یا آپکے گھر والوں کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں یہی سب۔ اور ان درندوں کو اسی بات کی شہ ملتی ہے کہ کوئ پوچھنے والا نہیں ہے، اندھیر نگری چوپٹ راج ہے۔ ہم بھی چھوٹ ہی جائیں گےکسی نا کسی دن۔
اسی شہ نے انہیں آج اتنا طاقت ور بنادیا کہ کراچی کی مروہ کو اپنی حوس کا نشانہ بناکر اس کے پھول جیسے جسم کو آگ کی تپش میں جھلسایا تاکہ تمام ثبوت مٹائے جاسکیں۔ اور اس واقعے کے دو دن بعد ہی خبر آتی ہے کہ گوجرانولہ جانے والی عورت کو موٹر وے پر کچھ درندوں کی جانب سے زیادتی کا نشانہ بنا گیا ہے۔ آئے تو ڈکیتی کی نیت ہی سے تھے لیکن مال و دولت کے بجائے عزت و آبرو لوٹ کر چلے گئے۔ کیا جب اس عورت کے بچے کل کو بڑے ہونگے تو کیا وہ فریاد نہیں کریں گے اپنی ماں سے، اپنے گھر والوں سے، اس معاشرہ سے، کہ کیا اب ہم اپنے ملک میں بھی محفوظ نہیں؟
ہم ایسا بے حس معاشرہ بن گئے ہیں، کہ جب زینب کو درندگی کا نشانہ بنایا تو خوب ہم آواز ہوئے لیکن اس دودھ کے ابال کی طرح تھے جو کہ اک وقت تک ہی تھا پھر وہی معمولی سی بات بن کر رہ گئ۔ زینب کے قاتل اور درندہ صفت انسان کو سزائے موت کے لیے قانون بھی لایا گیا، اسمبلی تک بھی پہنچا مگر اپوزیشن اور کچھ ان درندوں کے لے نرم گوشہ رکھنے والوں کی مہربانی تھی ان مجرموں پر جو یہ قانون منظور نہ ہوسکا اور آج تک یہ مجرمان آزاد ہیں۔ بلکہ نوبت یہاں تک آگئ کہ سڑکوں اور موٹرویز پر بھی عورت کی عزت محفوظ نہیں ہے۔
سی سی پی او لاہور کا بیان بھی اسی بے حس معاشرے کی اک جھلک ہے جس میں ظالم باعزت بری بھی ہوجاتا ہے تماشائیوں کی عدالت سے اور مظلوم اس سماج کی تنگ نظری کا حقدار بنتا ہے، مظلوم کو ہی قصوروار ٹھرایا جاتا ہے۔
بنگلادیش کی عدالت میں جج نے زیادتی کے مجرمان کو سزائے موت سناتے ہوئے آخری الفاظ کہے کہ یہ بنگلادیش ہے پاکستان نہیں۔ یہ جملہ یہاں اس لیے گوشہ گوار کیا کیونکہ جب مجرمان یوں ہی سزا کے حق سے بچتے رہیں گے تو پھر یہ امید تو بلکل ترک ہی کردیں کہ آپکے گھر محفوظ ہیں۔
آج عورتیں اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کر رہی ہیں، کیونکہ یہ عنصر پیش کرنا کہ برقع نہ کرنا، جسم کی نمائش کرنا شہ دینا ہے مرد کو، تو کیا مروہ بھی جسم دکھا رہی تھی؟ کیا موٹر وے پر بھی وہ عورت اپنے آپکو برہنہ کرکے کھڑی تھی، وہ تو اپنی گاڑی میں بیٹھی تھی اور مدد کی منتظر تھی۔
ویسے بھی اسلام مرد کو نگاہ نیچی رکھنے کا حکم دیتا ہے اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ مرد ایکٹو ہوتا ہے جبکہ عورت پیسو۔ اک تاثردیا جاتا ہے کہ اسلام میں عورت پر پردہ ہے،بس یہی تو کم علمی ہے جس نے معاشرے کو تباہ کردیا ہے۔ ہم نے عورتوں کے حوالے سے تو بہت جان لیا، پڑھ لیا، دیکھ لیا۔ بد قسمتی یہی ہے کہ ہم نے عورت کے اوپر ہی اسلامی پابندیاں نافذ کردیں جبکہ مرد کو بے قصور بنادیا۔
بے شک اسلام اک بہترین دین ہے جو کہ مرد و عورت دونوں کی زندگی کے لیے ضابطہ حیات کا اک بہترین راستہ ہے۔ مگر جہاں عورتوں کی ہر چیز پر نقص نکال کر، یہ کہہ کر کہ یہ راستہ سے گزرنا ہی عورت کی غلطی تھی، رات کے وقت نکلنا ہی غلطی تھی۔ وہاں مرد کی غلطی کو سرے سے ہی تسلیم نہ کرنا بھی ناانصافی ہے۔ اسلام میں مردوں کے حوالے سے یہاں تک کہا گیا ہے کہ مردوں کو چاہیئے اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں، کسی غیر محرم کی طرف نگاہ نہ اٹھائیں۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام میں مرد بھی کئ لحاظ سے پابند ہیں۔
بات کی جاتی ہے پردے کی، اور محرم کو ساتھ رکھنے کی۔ تو قبر میں اتارتے وقت توکوئ محرم ساتھ نہیں جاتا عورت کے اور با پردہ بھی ہوتی ہے پھر کیوں قبر میں عورت کی میت کے ساتھ زیادتی کے واقعات رونما ہوئے۔ مسئلہ یہی ہے کہ عورت کو ہر معاملہ میں قصور وار ٹھرا کر آپ مرد کو مزید شہ دے رہے ہیں ایسے واقعات کے لیے۔ کیا ان افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا ؟ جنہوں نے میتوں کی بے حرمتی کی؟ ہاں بس اتنا ضرور ہوا ہے کہ وہ ماضی کا اک قصہ بن گیا اور لوگ بھول گئے کیونکہ جہاں زندہ کی آواز نہ سنی جائے وہاں میت کی کون سنے گا۔
اسلام کے حوالے سے اک بات بہت واضح ہے کہ زنا کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ مجھے یاد پڑتا ہے جب ضیاالحق کا دور تھا تو ایسا ہی اک واقعہ رونما ہوا تھا حوا کی بیٹی کے ساتھ، تو بیچ چوراہے پر مینار پاکستان کے سامنے مجرم کو سزائے موت دی گئ تھی اور آنے والے ۱۰ سالوں میں کوئ زیادتی کا کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا۔
اک منطق ہے جو کہ بخوبی سمجھنے کے لائق ہے، کسی نے کسان سے پوچھا کہ تم کھیت پر کوے کی لاش کیوں لٹکاتے ہو، تو کسان نے کہا: کہ کھیت بچانے کے لیے کسی اک کو تو لٹکانا پڑتا ہے۔
یہ صرف اک منظق نہیں ہے بلکہ نصیحت ہے، اگرچہ انسانی حقوق کے پروردہ اسے انسانیت کی تزلیل سے بھی تشبیہ دیں گے جو کہ دی گئ اور یہی وجہ تھی جس کی وجہ سے زیادتی کے مجرمان کے خلاف بل منظور نہ ہوسکا۔ خیر اک انسان کی تذلیل اگر معاشرے میں سے بگاڑ کو ختم کرتی ہے یہ تزلیل نہیں بلکہ امن کی نشانی ہے اور اوپر سونے پہ سہاگا اس کا مجرم ہونا۔
اب زرا بات کرلیتے ہیں ریاست اور اس کے قانون کی۔ جناب مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی اک کو بھی عبرت کا نشان نہ بنایا جائے گا تب تک یہ واقعات ایسے ہی ہوتے رہیں گے، ہم ایسے ہی لکھتے رہیں گے اور آپ ایسے ہی پڑھتے رہیں گے، لوگ ایسے ہی جزبات کا اظھار کرتے رہیں گے اور پھر کچھ مہینوں بعد بھول بھی جائیں گے۔ کیا زینب کے قتل پر ہم جاگے نہیں تھے، کیا میڈیا نے شور نہیں مچایا تھا، کیا مجرم گرفتار نہیں ہوا تھا۔ جناب ہوا تھا اور سزا بھی ہوئ۔ مگر فرق یہی ہے کہ اگر اک ساتھ ہم آواز ہوکر اسے کیفر کردار تک پہنچاتے تو کیا ہی بات ہوتی۔ مگر اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا کر اپنا اپنا فتوی اور سرٹیفیکیٹ دے دینا کہ لٹکاؤ نہیں عمر قید دےدو۔ یہی وہ وقت تھا جب ان درندوں کواس بات کا یقین ہوگیا کہ اب ہم آزاد ہیں۔
پہلے کچھ واقعات کا ذکر کروںگا پھر چلوںگا حکومت کی طرف۔ ماضی میں اک واقعہ پیش آیا تھا جب پنجاب سے ہی اک کیس رپورٹ ہوا، جان کر حیران ہوجائیں گے کہ پڑوسی نے اک یتیم بچی جس کی ماں اللہ کو پیاری ہوچکی تھی اور باپ صبح سے رات ۹ تک کام کرتا تھا، پڑوسی بچی سے بات چیت کے بہانے گھر آتا اور اک دن زیادتی کا نشانہ بنا گیا۔ یہ روز مرہ کا معمول بنتا گیا، اور جب اک بزرگ نے اس صورتحال سے واقفیت جانی تو زیادتی کا شکار لڑکی کے دل میں اک امید کی کرن جاگی۔ مگر معاشرے کی بے حسی دیکھیں، اس لڑکی کے پیروں تلے زمیں نکل گئ جب اس نے اس بزرگ کی آنکھوں میں ہمدردی کے بجائے حوص کو دیکھا، کل تین افراد تھے جواس لڑکی کو اپنے حوص کے گہرے بادلوں میں گھیرے ہوئے تھے۔ بلآخر اک دن جب لڑکی کی طبیعت خراب ہوئ اسپتال لے جایا گیا تو پتہ چلا کے بچی تو ۳ سے ۴ ماہ کی حاملہ ہے اور اس کے باوجود زیادتی کا شکار رہی۔
ابھی اسی سال کراچی میں مروہ کو زیادتی کا نشانہ بنا کر جلا ڈالا۔ یا پھر موٹر وے پر جو واقعہ پیش آیا یا پھر اس واقعے کے اگلے ہی رات کو خبر آتی ہے لاہور کے علاقے سبزی منڈی میں اک لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، لڑکی کے چیخنے پر باپ آیا اور مجرم کو گرفتار کرلیا گیا۔
اب میں آتا ہوں ریاست پر، اگر آپ کو لگتا ہے کہ ریاست کچھ کرےگی تو یقین جانیں کرنا ہوتا توکب کا کرچکی ہوتی۔ ریاست ہے بھائ کوئ مزاق تھوڑی۔ اگرریاست کسی بات کا تہیہ کرلے تو پھر اسے کوئ دوسری طاقت نہیں روک سکتی۔ یہاں پر ریاست ہی کی نااہلی ہے۔ جب آپ مجرمان کو سخت سے سخت سزائیں نہیں دو گے، انصاف کو بالائے طاق رکھ کر مجرمان کی حوصلہ شکنی نہیں کروگے، تو واقعات ایسے ہی بڑھتے رہیں گے۔ یہ سب اک بیمار اور کمزور معاشرے کی ہی نشاندہی ہے۔
کیونکہ عمل درآمد میں بھی یہی پولیس تھی، یہی بیوروکریسی تھی، یہی عدالت تھی جس نے ماڈل ٹاؤن، پانامہ کیس، اور مجرمان کو بخوبی اپنے انجام تک پہنچایا اور پہنچا رہے ہیں۔ تو پھر یہاں اتنی نرمی کیوں؟ کیا وہ سماج کے لیے زیادہ بڑا خطرہ تھے، اور یہ جو اسلام اور پاکستان دونوں کے خلاف ہیں کیا یہ مفید ہیں۔ جب اس وقت ریاست اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے ہر حد تک جا سکتی ہے توپھر یہاں کیوں نہیں۔
بات یہاں یہ بھی کرنے والی ہے کہ تعلیم نہیں ہے، تعلیم گھر سے دی جاتی ہے اگر گھر ہی سے والدین، گھر والے اپنے بچوں کو کسی دوسرے کی لڑکی کی طرف گندی نگاہ رکھنے پر حوصلہ شکنی کریں اور چودہ طبق روشن کردیں تو انہیں باہر ایسے کام کرنے کا حوصلہ ہی نہ آئے۔
یہاں سماج بھی قصور وار ہے جس نے مرد کو عورت کو اک گالی سے زیادہ اور کچھ سمجھا ہی نہیں دی، یہ بات بہت ذمہ داری سے کر رہا ہوں کیونکہ ہر مزاق میں، ہر لڑائ میںِ ہر غصے، اور یہاں تک کہ ہر خوشی میں بھی ماں، بہن کی گالیاں دے کر پکارنا۔ اپنی گفتگو میں عورت کے جسم تک کو گالی کے طور پر استعمال کرنا۔ یہ سب کیا ہمارے سامنے نہیں ہوتا؟ بلکل ہوتا ہے۔ یہاں ہم بھی بطور معاشرہ زمہ دار ہیں۔
عورتوں کے حقوق کی علم بردار، ،معاشرے کو سدھارنے کا عزم لیے ہر ۸ مرچ کو نکلنے والیں بھی آج چپ ہیں کیونکہ اگر سچ میں عورت کی فکر ہوتی تو اس دن اس قانون کے حق میں کھڑی ہوتیں جب بل پاس ہورہا تھا اور اس بل کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی اینٹ سے اینٹ بجادیتیں جیسے کہ ٹی وی شوز یا ریلی میں کرتی ہیں۔ مگر افسوس، میں نے اپنے پچھلے بلاگ میں بھی زکر کیا تھا کہ اک عام عورت جو کہ سچ میں ان تمام مشکلات سے گزر رہی ہے یا مرد کے نام پر ان دھبوں کی بھینٹ چڑھ رہی ہے، وہ آج بھی اسی حال میں ہے کیونکہ صرف اک دن ریلی نکال لینے سے کچھ نہیں ہوسکتا۔
عورت کو اس سب میں ذمہ دار قرار دینا، اس سے اسکی عزت چھین لی گئ، اس بے حس سماج کی تنگ نظری کا شکار وہ ہوگی، اپنے بچوں اور خاندان کے آگے جوابدہ وہ ہوگی، کردار کشی اس کی ہوگی۔ اور کہتے ہو عورت ذمہ دار ہے؟؟ ذ٘مہ دارریاست ہے، یہ معاشرہ ہے، اور ہر وہ اسنان ہے جو اس درندگی میں عورت کو قصور وار ٹھرا کر ان درندوں کو حوصلہ قراہم کرتے ہیں۔
اس گندگی کو اگر سچ میں ختم کرنا ہے تو ہمیں کچھ سخت فیصلے کرنا ہونگے ام رباب جیسی قوم کی بیٹٰی جو کہ سچ میں کھڑٰی ہوئ ہے درندگی کے خلاف، اسکی آواز بننا ہوگا، ان تمام زیادتی کا شکار عورتوں کو انصاف دلانا ہوگا۔ پھر چاہے اس مجرم کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہو، حکومت وقت سے، فوج سے ہو، یا معاشرے کے کسی بھی ادارے سے ہو۔ جتنا بھی طاقت ور ہو، اگر قانون کی گرفت میں نہ لایا گیا تو پھر کارل مارکس کی وہ بات سچ ثابت ہوگی کہ قانون وہ جالا ہے جس میں ہمیشہ کمزور ہی پھنستا ہے اور امیر اور طاقتور نکل جاتا ہے۔(محمد فہد خان)۔۔
(بلاگر کی تحریر اور اس کے مندرجات سے عمران جونیئرڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)