لاہور پریس کلب کے صدرارشد انصاری،سینئر نائب صدر شیراز حسنات ، نائب صدر امجد عثمانی ، سیکرٹری زاہد عابد ، جوائنٹ سیکرٹری جعفربن یار ، فنانس سیکرٹری سالک نواز اور اراکین گورننگ باڈی نے پنجاب حکومت کے مجوزہ ہتک عزت قانون 2024 کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم سچ کہنے، سچ دکھانے اور سچ چھاپنے پر یقین رکھتے ہیں لیکن صحافیوں کی آنکھیں اور زبانیں بند کرنے کے لئے پنجاب حکومت آمرانہ ڈگر پر چل پڑی ہے۔ ہتک عزت قانون 2024کی برق رفتاری سے منظوری کرانے اور لاگو کرنے کی کوشش پنجاب حکومت کو مہنگی پڑے گی کیونکہ ان سے پہلے پرویز الٰہی کے ماضی قریب کے مختصر سے دور اور اس سے قبل بھرپور آمرانہ ادوار میں بھی آزادی صحافت پر ایسا شب خون مارنے کی کئی مرتبہ کوشش کی گئی تھی جو صحافیوں نے اپنے اتحاد سے ناکام بنائی تھی ۔ اراکین گورننگ باڈی کا کہنا ہے کہ صحافت اور صحافیوں کا گلہ دبانے کی بجائے حکومت گورننس پر توجہ دے تو اضافی درآمدی گندم میں اربوں کے گھپلوں اور پھر کسانوں سے گندم نہ خرید سکنے کی ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ گورننگ باڈی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ اب ہر وقت ہائیکورٹ ،ٹربیونل،جرمانے،گرفتاریوں کا خوف ڈال کر صحافیوں کی زبان بندی کی کوشش کی گئی ہے اور افسوس ہے کہ مختلف ادوار میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والی مسلم لیگ ن یہ بوجھ اپنے کندھے پر اٹھانے کو تیار ہے بظاہر اس نئے قانون کے تحت ڈان لیکس جاری کرنے والوں اور ڈان لیکس چھپوانے والوں کو بھی بچنے کا راستہ نہیں ملے گا۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ آزادی صحافت کی بات کرنے والی پنجاب حکومت کی اتحادی پیپلز پارٹی بھی اس کے خلاف آواز اٹھائے گی ۔گورننگ باڈی مطالبہ کرتی ہے کہ ازاد صحافت سے خوفزدہ ہونے کی بجائے اس سے رہنمائی لینے کا کام لیا جائے تو اس سے اصلاح ہو گی اور کوئی بھی قانون سازی تمام فریقین کی مشاورت سے کی جائے تو مثبت اور دیرپا نتائج حاصل ہوں گے لیکن صرف دو روز میں کمیٹی اور اسمبلی سے منظور ہونے والے کسی قانون کو صحافی برادری کسی صورت تسلیم نہیں کرے گی اور ماضی کی روایات کے مطابق اس بل کو ردی کی ٹوکری میں پھینکے گی۔ لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت جوش کی بجائے ہوش سے کام لے اور اس کام کو عجلت میں رات کی تاریکی میں کرنے کی کوشش نہ کرے۔لاہور پریس کلب اس سلسلے میں تمام صحافی تنظیموں، سیاسی جماعتوں،سول سوسائٹی سے رابطے میں ہے جلد ہی اس مجوزہ کالے قانون کے خلاف حکمت عملی طے کر لی جائے گی اور تمام صحافی تنظیموں کو لاہور پریس کلب کے متفقہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے تحریک کا آغاز کیا جائے گا اور حالات کی ذمے داری حکومت پنجاب پر ہو گی۔اس لئے اب بھی وقت ہے کہ دھونس اور جبر کی بجائے جمہوری انداز سے معاملات آگے بڑھائے جائیں تاکہ سسٹم کا پہیہ چلتا رہے۔ دریں اثنا پنجاب یونین آف جرنلسٹس نے پنجاب کا بینہ کی طرف سے لایا جانے والا مجوزہ ہتک عزت کے بل کو آزادی صحافت پر سنگین حملہ اور صحافیوں کو پابند سلاسل کرنے کو کوشش قرار دیا ہے اور کہا ہے صحافی ایسے کسی قانون کو قبول نہیں کریں گے جو آئین پاکستان اور بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہو۔ پی یوجے کے پی صدر زاہد رفیقی بھٹی ، جنرل سیکرٹری حسین ترندی، خزانچی خاور بیگ ، سابق صدر پی یو جے اور مبر ایف ای سی گوہر بٹ، قمر الزمان بھٹی سیکرٹری پنجاب اسمبلی پریس گیلری خواجه حسان ، سابق صدر پنجاب اسمبلی پریس گیلری خواجہ نصیر نے ایک ہنگامی مشاورتی اجلاس کیا جس میں سینئر وکلاء سے بھی مجوزہ ہتک عزت قانون پر غور کیا گیا۔مشاورتی اجلاس میں قرار دیا کہ یہ قانون جس انداز اور ماحول میں بنایا جا رہا ہے اس سے صاف نظر آتا ہے حکومت میڈیا کو اور سوشل میڈیا کی آواز کو دبانے کے لئے گاہے بگاہے ایسے قوانین لاتی ہے جس کا مقصد آزادی صحافت کا گلا دبانہ۔ حیرت کی بات ہے یہ مجوزہ قانون پنجاب کا بینہ نے 13 مئی کے روز منظور کیا جس سے صحافیوں کو یہ پیغام دینا بھی مقصود تھا کہ جس طرح 13 مئی 1978 کو ایک آمر جنرل ضیاء نے صحافیوں کو کوڑے مارے تھے اسی طرح یہ حکومت بھی اس سیاہ اقدام کا تسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔ پی یو جے کے صدر زاہد رفیق بھٹی نے زور دیا کہ حکومت فوری طور پر اس قانون پر پنجاب یونین آف جرنلسٹس۔ لاہور پریس کلب اور پنجاب اسمبلی پر لیس گیلری سے مشاورت کرئے اور صحافیوں کے تحفظات کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا یہ قانون آئین میں دیئے گئے بنیادی انسانی حقوق اور آزادی صحافت سے متصادم ہے۔ اگر حکومت ملک میں جھوٹی خبروں اور جھوٹے پروپگنڈے کا خاتمہ چاہتی ہے تو ایسا قانون بنایا جائے جس میں جھوٹ کا پرچار کرنے والا ہر شخص قابل گرفت ہو نہ کہ صرف صحافی ۔ اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت ملک میں صحافیوں کے تحفظ کے لئے جرنلسٹس پروٹیکشن بل بنائے جس طرح سندھ حکومت نے بنایا ہے جبکہ صحافیوں کے خلاف پہلے سے موجود متعدد قوانین اور پریکا ایکٹ کو ختم کیا جائے ۔ صحافی نہیں چاہتے کہ حکومت ایسے قوانین بنائے جس سے صرف اہل صحافت کو ٹارگٹ کرنا مقصود ہو۔ ملک میں پہلے کی آزاد صحافت مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔ دنیا کے جن مہذب ملکوں کے ہتک عزت کے قانون کی مثال دی جاتی ہے وہاں ایسے قوانین صرف صحافیوں کے لئے نہیں بلکہ پورے سماج کے لئے ہیں اسی لئے وہاں جھوٹ کا کاروبار نہیں چلتا۔ پی یوجے کی قیادت نے اس معاملہ پر مزید مشاورتی عمل کرنے کا اعلان بھی کیا۔