تحریر: شہباز اکمل جندران۔۔
یہ 7جون کی تپتی ہوئی دوپہر تھی۔ عدالتوں میں سارے کام کاج سے فارغ ہونے کے بعد اب اپنے چیمبر میں داخل ہو رہا تھا۔ جیسے ہی اپنی سیٹ پر براجمان ہوا، آفس کلرک ٹھنڈا پانی لے آیا اور اے سی بھی چلا دیا۔ جس سے چیمبر کا ٹمپریچر قدرے بہتر ہو گیا۔ میرا ارادہ کچھ دیر آرام کرنے کا تھا لیکن ایک اہم کیس کے باعث فائلوں کے ڈھیر میں گم ہو گیا۔ اور متعلقہ کیس کی فائل تلاش کرنے لگا۔ مجھے جس فائل کی تلاش تھی، بالآخر مل گئی۔
صحافت اور وکالت دو ایسے پیشے ہیں جس میں ہمہ وقت متحرک رہنا پڑتا ہے۔ جن دنوں صحافت میں تھا اور رپورٹر کی حیثیت سے صحافتی فرائض سرانجام دے رہا تھا، ہمیشہ تحقیقاتی سٹوریز کو ترجیح دی۔ جو چھپتیں، تو سخت ردعمل آتا۔صحافت میں رہتے ہوئے ایل ایل بی کیا تو وکالت جوائن کر لی۔ میرا یہ ’’فیصلہ‘‘ بڑا چیلنجنگ تھا۔ جس میں کئی اہم کیسوں سے واسطہ پڑا۔ ایک بات تو ہے کہ صحافت نے مجھے جو اسرار و رموز سکھائے، وکالت میں میرے بڑے کام آئے۔
ابھی متعلقہ فائل کا مطالعہ کر رہا تھا کہ راجہ ریاض کی کال آ گئی۔ راجہ صاحب ہمارے صحافی دوست ہیں۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ورکرز گروپ کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں۔ ہرسال دسمبر میں جب لاہور پریس کلب کے الیکشن ہوتے ہیں تو کلب کی سیاست میں ان کا اہم اور کلیدی کردار ہوتا ہے۔ بڑے دبنگ جرنلسٹ ہیں۔ ہمیشہ بولڈ بات کرتے ہیں۔ راجہ ریاض فون پر پنجاب حکومت کے نئے ہتک عزت قانون پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے تھے اور اس موڈ میں تھے کہ اس قانون کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے۔ راجہ ریاض کا مؤقف تھا یہ ایک کالا قانون ہے۔ جو صحافتی کمیونٹی کو کسی صورت منظور نہیں۔
بطور وکیل میں نے پٹیشن کی حامی بھر لی۔ اسی دوران لاہو ر پریس کلب کے جوائنٹ سیکرٹری جعفر احمدیارنے بھی رابطہ کر کے اس قانون کو چیلنج کرنے کا عندیہ ظاہر کیا۔ جعفر احمد یار کہہ رہے تھے پوری صحافتی برادری اس قانون پر سراپا احتجاج ہے۔ جبکہ یہ قانون انسانی حقوق کے بھی سراسر منافی ہے۔ میں نے جعفر سے بھی وعدہ کیا کہ کل صبح اس حوالے سے پٹیشن عدالت عالیہ میں دائر کر دی جائے گی۔
اپنے کولیگ ندیم سرور ایڈووکیٹ کو بھی میں نے اپنے چیمبر میں بلا لیا ۔ طویل مشاورت کے بعد طے پایا کہ ساری رات اس کیس کی تیاری کریں گے تاکہ صبح ہوتے ہی پٹیشن دائر ہو سکے۔ ہم نے قائم مقام گورنر ملک احمد خاں کے دستخط سے منظور شدہ اس قانون کی کاپی بھی منگوا لی جبکہ ہتک عزت کا قانون جو پہلے ہی سے موجود تھا وہ بھی ہمارے زیر غور آیا۔ ہم ایک ایک شق کا جائزہ لیتے رہے۔ نیا قانون آئین کی کس کس شق سے متاثر ہے، بڑی توجہ اور غور سے اس کا مشاہدہ کیا، رات گئے تک ہم نے پیٹشن پر کام مکمل کر لیا۔ بالآخر ندیم سرور ایڈووکیٹ سے مشاورت کے بعد پٹیشن کا ڈرافٹ لکھنا شروع کیا۔ جن آئینی نکات کے نوٹس لکھے تھے اْن کی روشنی میں ایک جامع پٹیشن تیار ہو گئی۔
صبح ہوتے ہی رجسٹرار افس لاہورہائی کورٹ میں پٹیشن دائر ہو چکی تھی۔ تام رجسٹرار آفس نے ایک اعتراض لگادیا کہ پٹیشن کے ساتھ ایکٹ کی بجائے بل کی کاپی لف ہے۔ یہ ساری کارروائی 8جون کو ہوئی۔ یہ ہفتے کا دن تھا۔ اگلے روز اتوار اور چھٹی تھی۔ 10جون کو پیر والے روز ہم نے رجسٹرار آفس کو ایکٹ کی کاپی فراہم کر دی۔ جس کے بعد اعتراض ختم کر دیا گیا اور اگلے ہی روز یعنی 11جون کو پٹیشن سماعت کے لیے مسٹر جسٹس محمد امجد رفیق کی عدالت میں مقرر کر دی گئی۔
سماعت والے دن کمرۂ عدالت وکلاء، پولیس، مختلف اداروں سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں اور میڈیا کے نمائندوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ عدالت کی مداخلت پر نائب کورٹ نے تمام غیر متعلقہ افراد کو کورٹ روم سے باہر نکال دیا۔ جس کے لیے اسے کبھی سختی اور کبھی نرمی سے کام لینا پڑا۔ جسٹس محمد امجد رفیق ٹھیک 9بجے عدالت میں تشریف لے آئے۔ اس موقع پر عدالتی امور کی انجام دہی کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوا۔ تلاوت کی سعادت ، عدالتی عملے کے ایک رکن کو حاصل ہوئی۔ جس کے بعد معمول کے کیسوں کی شنوائی شروع ہو گئی۔
ابتداء میں ضمانتوں سے متعلق کیس سنے گئے۔ کچھ اور اہم کیس بھی زیر سماعت آئے۔ لسٹ میں ہمارا نمبر 24واں تھا۔ ریڈر نے جعفر احمد یار بنام گورنمنٹ آف پنجاب پکارا تو ایک عدالتی معاون نے کورٹ روم کے باہر بھی یہ آواز لگائی جس کے بعد پٹیشنرز راجہ ریاض اور جعفر احمد یار کی جانب سے ندیم سرور ایڈووکیٹ اور میں روسٹرم پر آ گئے۔ معزز عدالت کئی طرح کے سوال کر رہی تھی، جنہیں کورٹ روم میں موجو د میڈیا کے نمائندے ٹِکرز کی صورت میں اپنے چینلز کو بھجوا رہے تھے۔
معزز فاضل جج نے کیس میں بہت دلچسپی ظاہر کی۔ کئی کراس سوال کئے ۔ ندیم سرور ایڈووکیٹ نے جن کے جواب انتہائی جامع اور مدلل انداز میں دئیے۔ مزید کہا کہ ہتک عزت قانون کا سیکشن 3آئین کے آرٹیکل 10/Aسے بالکل متصادم ہے۔ ندیم سرور نے سیکشن 5، سیکشن 6اور ایکٹ کے سیکشن 8پر تفصیلی دلائل دئیے۔ عدالت نے ندیم سرور کے دلائل سے اتفاق کیا۔ تاہم حکومتی لاء افسر نے اس موقع پر حکومتی مؤقف بھی عدالت کے روبرو پیش کیا جس کے بعد عدالت نے ایکٹ کے سیکشن 3،5،6اور 8پر مدعا علیہان اور پنجاب حکومت سے پیراوائز جواب طلب کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ تاریخ پیشی پر ایڈووکیٹ جنرل اور اٹارنی جنرل کو بھی معاونت کے لیے طلب کر لیا۔ جبکہ حتمی فیصلے تک حکم امتناع جاری کرتے ہوئے ہتک عزت ایکٹ 2024ء پر عملدرآمد بھی روک دیا۔
’’ہتک عزت قانون‘‘ پر صحافی برادری کیوں معترض اور سراپا احتجاج نظر آتی ہے؟ صحافیوں کی آواز لاہور پریس کلب سے نکل کر اب پنجاب اسمبلی میں بھی گونجنے لگی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں بھی صحافیوں کے اس ’’احتجاج‘‘ میں اْن کے ساتھ کھڑی ہیں، ہم آواز نظر آتی ہیں۔ 13جون کو بجٹ اجلاس کے موقع پر بھی یہ احتجاج دیکھنے میں آیا۔ اسمبلی کی کوریج کرنے والے تمام میڈیا نمائندے بازئووں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر بجٹ اجلاس میں شریک ہوئے اور اپنا احتجاج ریکارڈکرایا۔ لاہور پریس کلب صحافیوںکے اس احتجاج میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ عہدیداران نے دھمکی دی ہے کہ ہتک عزت کے اس قانون کو واپس نہ لیا گیا تو صحافیوں کا یہ احتجاج تحریک کی صورت اختیار کر کے پنجاب کے دیگر اضلاع تک پھیل جائے گا۔ جبکہ اسلام آباد اور دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے صحافی بھی اس احتجاجی تحریک کاحصّہ ہوں گے۔
راجہ ریاض اور جعفر احمد یار کے بعد مزید کئی صحافیوں نے بھی اس کالے قانون کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔پنجاب حکومت عجلت میں ہتک عزت کا جو قانون لائی ہے اْسے صحافیوں نے قبول نہیںکیا۔ سخت مخالفت کے باوجود اس کالے قانون کو پنجاب اسمبلی سے منظور کرایا گیا۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے پنجاب کے گورنر سلیم حیدر کی عدم موجودگی میں جب ملک احمد خان قائم مقام گورنرتھے۔ قانون کی سمری پر اْن سے دستخط کرائے گئے۔ یوں یہ قانون نافذالعمل ہو گیا۔
چیف منسٹر مریم نواز، جنہیں صحافی دوست چیف منسٹر کہا جاتا ہے، اس قانون کے باعث صحافیوں اور اْن کے مابین کافی دوری پیدا ہو گئی ہے۔ مریم کو چاہیے مزید وقت ضائع کرنے کی بجائے صحافتی تنظیموں سے بات کریں۔ ورنہ اس قانون کے باعث انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
صحافیوں اور پنجاب حکومت کے مابین جو ’’خلیج‘‘ حائل ہے اْس کا خاتمہ ضروری ہے۔ صوبائی حکومت کو اس لڑائی سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ آئین سے متصادم بنایا گیا یہ قانون نہ صرف لاہور ہائی کورٹ سے کالعدم ہو جائے گا بلکہ حکومت کی بھی سبکی کا باعث بنے گا۔ پنجاب حکومت کے لیے کیا بہتر ہے، کیا نہیں؟ یہ پنجاب حکومت کو ہی سوچنا ہے اور فیصلہ کرنا ہے کہ عدالتی فیصلے سے قبل اْسے اس قانون پر کیا فیصلہ لینا ہے۔ اسے نافذالعمل رکھنا ہے یا اس کے لیے واپسی کا راستہ اختیار کرنا بہتر ہو گا۔(بشکریہ نوائے وقت)۔۔