جیو نیوز کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“میں میزبان علینہ فاروق کے سوال پنجاب اسمبلی سے ہتک عزت بل 2024ء منظور، پنجاب حکومت کی معاملہ سے متعلق جلدبازی کی وجہ کیا ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا کہ پنجاب حکومت کو ہتک عزت بل منظور کرانے کی اتنی جلدی کیا تھی کون سی قیامت آرہی تھی۔اس بل پر صحافتی تنظیموں کے ساتھ سول سوسائٹی کی رائے بھی لی جانی چاہئے تھی، ہتک عزت قانون جس طرح پاس کیا گیا اس سے حکومت کی نیت نظر آتی ہے، قانون حکومت اور پبلک آفیشلز کے امیج کا تحفظ کرنے کیلئے لایا جارہا ہے۔پروگرام میں تجزیہ کار اعزاز سید،ریما عمر،سلیم صافی اور عمر چیمہ نے اظہار خیال کیا۔اعزاز سید نے کہا کہ پنجاب اسمبلی سے ہتک عزت بل جلدبازی میں منظور کیے جانے کا اعتراض درست ہے، اس بل پر صحافتی تنظیموں کے ساتھ سول سوسائٹی کی رائے بھی لی جانی چاہئے تھی،یہ بل مجموعی طورپر درست اقدام ہے مگر اس میں کچھ خامیاں ہیں جنہیں بہتر کیا جاسکتا ہے۔۔یہ شق ڈریکونین ہے کہ ٹریبونل کسی بھی شخص کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ بند کرنے کا حکم دے سکتا ہے، ہتک عزت کچھ خاص عہدوں، خاص شخصیات یا خاص اداروں تک محدود نہیں کرنی چاہئے،ہتک عزت عام آدمی کی بھی ہوتی ہے بل میں سب کو شامل کیا جانا چاہئے۔ریما عمر کا کہنا تھا کہ ہتک عزت قانون جس طرح پاس کیا گیا اس سے حکومت کی نیت نظر آتی ہے، قانون حکومت اور پبلک آفیشلز کے امیج کا تحفظ کرنے کیلئے لایا جارہا ہے اس میں بڑا مسئلہ ہے، ہتک ایک شخص کی عزت کے بارے میں ہوتی ہے۔۔حکومت یا اداروں کی عزت اس میں کور نہیں ہوتی، اس قانون سے پیغام مل رہا ہے کہ حکومت، اداروں اور آئینی آفس ہولڈرز اور ان کے امیج کو تحفظ دینا ہے، پاکستان میں ہتک عزت قانون 2002ء پہلے سے موجود ہے۔