تحریر: امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب۔۔
گردش ایام کے سامنے کون سا “تاج شاہی”اور کون سی”مسند اقتدار”؟؟؟کوئی پنجاب کی وزیر اطلاعات محترمہ عظمی بخاری کو بتائے کہ کبھی جناب فواد چودھری وفاقی وزیر اطلاعات ہوا کرتے اور آزادی صحافت کا گلہ گھونٹنے کے لیےاسی طرح کا “خاکہ” لیے پھرتے تھے اور پرویز الٰہی حکومت کی بھی یہی”خام خیالی” تھی۔!!!!لیکن کیا کیجیے صاحب کہ خوشامدی مشیر”صاحب اقتدار” کو کہیں کا نہیں چھوڑتے۔۔”برانڈ” کو “لنڈا” کر دیتے ہیں۔۔محترمہ مریم نواز کی پنجاب حکومت بھی اڑان بھرنے ہی لگی تھی کہ پر کاٹے جانے لگے ہیں۔۔وکلا کے بعد میڈیا سے تنازع نیک شگون نہیں۔۔پنجاب حکومت کا ہتک عزت کا مجوزہ قانون تو “شب خون”ٹھہرا کہ اپنے تئیں “باخبر” ریاست کے چوتھے ستون کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی اور ایک “حکم نامہ”جاری کر دیا گیا۔۔اس طرح تو بھٹہ مزدوروں اور نان بائیوں کے لیے بھی “ضابطے” نہیں بنتے اور نہ وہ ایسے “جبرنامے” قبول کرتے ہیں۔۔بہر کیف لاہور پریس کلب میں صحافیوں کے نمائندہ اجتماع نے ایک روز پہلے متفقہ طورپر پنجاب حکومت کا “حکم نامہ”مسترد کرتے ہوئے بھرپوراحتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیا۔۔۔لاہور پریس کلب کا نثار عثمانی آڈیٹوریم صحافیوں کے حقوق کی جدو جہد کا “استعارہ” بھی ہے کہ جب کبھی صحافت پر کوئی برا وقت آتا ہے تو صحافی “ہم سب ایک ہیں”کا نعرہ لگا کر اس چھت تلے سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔۔یہ ایک طرح کا صحافیوں کے امام کہلائے جانے والے جناب نثار عثمانی کو خراج عقیدت بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے ضیا آمریت کے گھپ اندھیرے میں خون جگر دیکر آزادی اظہار کے “دیے” جلائے۔۔۔ایسے “چراغ” کب بجھتے ہیں۔۔نسلیں ان سے روشنی لیکر اپنی راہیں متعین کرتی رہیں گی۔۔اب کی بار بھی اسی نثار عثمانی آڈیٹوریم میں پنجاب حکومت کے مجوزہ ہتک عزت بل 2024 کے حوالے سے صدر پریس کلب ارشد انصاری کی زیر صدارت ہنگامی اجلاس ہوا۔اجلاس میں صحافی تنظیموں کے نمائندوں اور سینئر صحافیوں نے شرکت کی۔اجلاس میں مجوزہ ہتک عزت بل 2024 کو متفقہ طورپر مستردکردیاگیا اور فیصلہ کیا گیا کہ آج سوموار کو پنجاب اسمبلی کے باہر لاہورپریس کلب اور صحافی تنظیموں کے نمائندے بھرپور احتجاج کریں گے۔۔ اجلاس میں سی پی این ای کے صدر ارشاد احمد عارف نے خصوصی شرکت کی۔۔۔ان کا کہا حرف آغاز ہی حرف اختتام ٹھہرا اور تحریک کا اعلامیہ بن گیا۔۔اجلاس میں فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ، پنجاب یونین آف جرنلسٹس، ایپنک،پنجاب اسمبلی پریس گیلری ،فوٹوگرافرز اور کیمرہ مین ایسوسی ایشن کے تمام دھڑوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔۔۔اجلاس میں ماہر قانون عدیل عباس، خرم محمود، رانا ندیم اور بیرسٹر سہیل انصر پر مشتمل لیگل پینل نے ہتک عزت بل کے خدوخال پر بریفنگ دی۔۔لاہور پریس کلب صدر ارشد انصاری نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ہتک عزت بل 2024 مسلط کیاجارہاہے ،اسے قبول نہیں کریں گے۔۔حکومت کو اپنے احتجاج سے پرامن اندازمیں آگاہ کررہے ہیں۔۔انہوں نے خبردار کیا کہ حکومت بل بنانے سے باز نہ آئی تو سوموار سے اسمبلی اجلاس سے پہلے بھرپور احتجاج ہوگا۔۔انہوں نے بتایا کہ کہ احتجاج میں پنجاب اسمبلی کی اپوزیشن کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے گی جبکہ سول سوسائٹی کے نمائندے بھی احتجاج میں شریک ہو ں گے۔۔ سی پی این ای ، پی بی اے ، اے پی این ایس، ایمنڈ اورفیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے رکن اور سی پی این ای کے صدر ارشاد احمد عار ف نے بتایا کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی پہلے ہی اس قانون کو مسترد کر چکی ہے اور ہم اس احتجاج کے حق میں ہیں۔۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک طرح کی سپیشل کورٹ ہے اور سپیشل کورٹ کے اپنے ہی اختیارات ہوتے ہیں۔۔انہوں نے کہا کہ جب ہتک عزت قانون کے لیے مرضی کے ٹربیونل بنیں گے تو فیصلے بھی مرضی کے جائیں گے۔۔پیمرا، ہتک عزت اور پیکا کے قوانین پہلے سے موجود ہیں۔۔نیاقانون بدنیتی پرمبنی ہے۔۔ یہ قانون آزاد صحافت کو ٹارگٹ کرنے کے لئے بنایاجارہاہے۔۔سی پی این ای کے سابق صدر کاظم خان نے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کی مکمل حمایت کی۔۔خاکسار نے بطور نائب صدر لاہورپریس کلب گزارش کی کہ یہ ہتک عزت قانون نہیں حکم نامہ ہے بلکہ صحافیوں کے لیے شکنجہ ہے۔۔میں نے کہا کہ محسن نقوی کی نگران حکومت کی طرح ایک بار پھر صحافی کی “آوارہ گرد قسم” کی تعریف وضع کی گئی جسے ہم ردی کی ٹوکری میں پھینکتے ہیں۔۔صحافی کی وہی تعریف چلے گی جو ہمارے اکابرین صحافت کرچکے۔۔۔ سیکرٹری لاہورپریس کلب زاہد عابد نے کہاکہ ہم حکومت سے کوئی ٹکراﺅ نہیںچاہتے لیکن اگر قانون اس طرح مسلط کیاگیا تو امن احتجاج کا ہر راستہ اختیارکریں گے۔۔۔فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل راجہ ریاض نے واضح کیا کہ اس قانون میں آئین کے آرٹیکل 19 اے کی واضح خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ ۔۔۔آرٹیکل 10 اے کو بھی روندا جارہاہے۔۔ جرمانے کی حد تین کروڑ روپے تک ہے جب کہ اس قانون کے تحت صحافی کی مروجہ تعریف بھی تبدیل کی جارہی ہے جو کسی صورت قبول نہیں۔۔۔فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری راناعظیم کی جانب سے بھی اس عزم کا اظہارکیاگیا کہ اس قانون کے خلاف ہرسطح پر مزاحمت کریں گے اور لاہورپریس کلب کے ساتھ مل کر احتجاج کریں گے۔۔پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے صدر زاہد رفیق بھٹی نے کہاکہ سینئر وکلاءسے مشاورت کر کے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں گے اور احتجاج کا راستہ بھی اختیارکریں گے۔۔پی یو جے کے سیکرٹری جنرل حسنین ترمذی نے مشورہ دیا کہ احتجاج کے ساتھ ساتھ قانونی راستہ بھی اختیار کرنا چاہیے۔۔پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے صدر ضیاءاللہ خان نیازی نے کہاکہ اس کالے قانون کو یکسر مسترد کرتے ہیں ، کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔۔ پی یوجے دستور کے مرکزی رہنما حامد ریاض ڈوگر نے رائے دی کہ اس قانون کا راستہ روکنے کے لئے متحد ہوکر احتجاج کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے دستور گروپ مکمل حمایت کا اعلان کرتاہے۔ ۔۔۔سابق صدر لاہورپریس کلب معین اظہر نے کہاکہ ہم کسی کی پگڑیاں اچھالنے کے حق میں نہیں ، لیکن پیشہ وارانہ صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں خوف کی فضاءکو برداشت نہیں کریں گے۔۔ پریس گیلری کے سیکرٹری حسان احمد نے کہا کہ فیک نیوزکی مجوزہ قانون میں کوئی واضح تعریف نہیں کی گئی کسی مخالف پر بھی الزام لگاکر کارروائی کی جاسکتی ہے۔۔ایپنک کے اسسٹنٹ سیکرٹری نواز طاہر اور پی یو جے کے رہنما شاہد چوہدری نے انکشاف کیا کہ قانون پاس کرنے والی کمیٹی میں من پسند لوگوں کو شامل کیاگیا اور اپوزیشن سے بھی کوئی متفقہ نام نہیں لئے گئے جو حکومتی بدنیتی ظاہر کرتی ہے۔۔۔ نعیم حنیف نے تجویز دی کہ یہ قانون مارشل لاءدورکا تسلسل لگ رہاہے۔۔وزیراعلی پنجاب سے بات کرکے اپنے تحفظات سے آگاہ کیاجائے۔۔ قمربھٹی نے کہاکہ یہ کالا قانون ہے اسے یکسر مسترد کرتے ہیں۔۔۔جاوید فاروقی نے کہاکہ سب کو متحد ہوکر اس قانون کے خلاف کھڑا ہوناچاہیے۔۔ممبر گورننگ باڈی عمران شیخ، فاطمہ مختار بھٹی اور اعجاز مرزا نے کہاکہ لگتاہے کہ حکومت اس قانون کو لاگوکرنے پر بضد ہے۔۔صحافیوں کو اس پر متحد ہوکر مقابلہ کرنا چاہیے۔۔کورٹ رپورٹرزایسوسی ایشن کے صدر عبادالحق نے کہاکہ زبان بندی کی کوشش کی گئی ہے جسے قبول نہیں کرتے۔۔۔فوٹو گرافر ایسوسی ایشن کے رہنما عمر شریف کاکہنا تھا کہ مشترکہ مفاد کے لئے جدوجہد کریں گے۔۔وحید بٹ ، رضوان انور ، صلا ح الدین بٹ ، پرویز الطاف نے کہاکہ متحد ہوکر اس قانون کے خلاف کھڑے ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔۔۔۔ اجلاس میں پریس کلب کے فنانس سیکرٹری سالک نواز ، ممبران گورننگ باڈی راناشہزاد،عابد حسین ، سید بدر سعید ، سینئر صحافی منور بٹ خاوربیگ ،شکیل سعید،فرازفاروقی ، رفیق خان ، اعجاز لاہوری، خالد امین ، احسان بھٹی اور تنویر ہاشمی سمیت صحافیوں نے بھی تجاویز دیں۔۔۔۔بہر کیف لاہور پریس کلب میں صحافیوں کے نمائندہ اجتماع نے پنجاب حکومت کے ہتک عزت قانون پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔۔۔اب حکومت سٹیک ہولڈرز کے تحفظات کے باوجود “کسی ناک” کے چکر میں یہ بل منظور بھی کرلیتی ہے تو یہ “متنازع قانون” ٹھہرے گا۔۔
پس تحریر:پنجاب حکومت ہتک قانون پر مذاکرات کے آمادہ ہو گئی جس پر لاہور پریس کا سوموار کے روز احتجاج موخر کر دیا گیا۔(امجدعثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب)۔۔