pathar se keeray ka rizq

حساس عورتیں اور آج کا مزاح

تحریر: یاسر پیرزادہ۔۔

آہ کیا زمانہ تھا ، کیا آزادی تھی ، کیا بے خوفی تھی !

اِس سے پہلے کہ آپ میری آہ و بکا سے کوئی غلط مطلب اخذ کریں اور سوچیں کہ میں مردِ حُرّ بننے کی کوشش کر رہا ہوں اور علامتی انداز میں کالم لکھ کر شہیدوں میں نام لکھوانے کا ارادہ رکھتا ہوں ، میں واضح کردوں کہ میری مرادستّر کی دہائی سےہے جب لوگوں کو بلا کھٹکے ہر قسم کی گفتگو کرنے کی آزادی تھی، وہ آزادی اب نہیں رہی، میں اُس کا ماتم کر رہا ہوں ۔اُس آزادی کی تفصیل میں آگے چل کربیان کروں گا پہلے اُس زمانے کے اخبارات میں شائع ہونے والا ایک اشتہار ملاحظہ فرمائیں ۔سرخی: یہ پاسپورٹ تمہارا نہیں ہوسکتا۔ ذیلی سُرخی: پاکستان سے واپس جاتے ہوئے ایک سیّاح کی عجیب و غریب پریشانی ۔متن: ’’پاسپورٹ میں نشانِ امتیازکے خانے میں درج تھا کہ ان کے چہرے پر کالے دھبے ہیں لیکن سیّاح صاحب کا چہرہ ہر قسم کے داغوں سے صاف تھا۔ کسٹم والوں نے وضاحت طلب کی تو انہوں نے بتایا کہ ”پاکستان میں آکر میں نے ایمکس کریم استعمال کی اُس کی وجہ سے میرے چہرے کے کالے دھبّے اِس حد تک کم ہوگئے کہ اب دکھائی بھی نہیں دیتے۔‘‘ ایمکس کریم رنگ گورا کرتی ہے ، چہرے کے داغ دھبّے دور کرتی ہے ۔جھائیاں مٹاتی ہے۔ہرجگہ ملتی ہے۔قیمت ڈھائی روپے۔

کیا عمدہ اور تخلیقی اشتہار ہے مگر اپنےدل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا اِس قسم کا اشتہار آج کے اخبارات میں شائع ہوسکتا ہے ؟ نہیں ،کیونکہ آج کل تو آپ کالے کو کالانہیں کہہ سکتےبلکہ ’پیپل آف کلر‘ کہتے ہیں، اب بندہ پوچھے یہ کیا ترکیب ہوئی ، اگر کالا اتنا ہی نفرت انگیز لفظ ہے تو لغت میں اِس کا مطلب سیاہ رنگ سے بدل کر نفرت کی گالی کر دینا چاہئے (ویسے میں نے کافی عرصے سے جدید لغت نہیں دیکھی، ہوسکتا ہے وہاں کالے کا مطلب واقعی بدل دیاگیا ہو)۔دراصل اِس قسم کی نزاکتیں پہلے یورپ وغیرہ میں آتی ہیں اُس کے بعد ہم بھی انہیں درآمد کر لیتے ہیں ۔کچھ عرصہ پہلے تک اپنے ہاں رنگ گورا کرنے والی کریموں کے اشتہارات ٹی وی پر ڈنکے کی چوٹ پر چلائے جاتے تھے ، یہ اشتہار اب بھی نشر ہوتے ہیں مگر ذرا سی ترمیم کے بعد ، اِن کریموں کے نام سے اب لفظ ’فیئر‘ حذف کردیا گیا ہے اور اُس کی جگہ ’گلو‘ نے لے لی ہے۔کریم کا کام وہی ہے مگر صرف نام میں ہیرا پھیری کرکے اسے قابل قبول بنایا گیا ہے ، بالکل ویسے جیسے اپنے ہاں جدید بینکنگ کو اسلامی بینکنگ کالبادہ اوڑھاکراسے مشرف بہ اسلام کیا گیا ہےحالانکہ دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔اسی طرح آج کل آپ کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہوگی کہ کرکٹ کے مبصرین اب بیٹسمین کو بیٹر کہتے ہیں، شروع شروع میں یہ سُن کر مجھےیوں لگا جیسے مبصر حضرات نے بیٹسمین کا مخفف بولنا شروع کردیاہے مگر بعد میں پتا چلا کہ آئی سی سی کی ہدایت ہے کہ کرکٹ تبصرےمیں صنفی امتیازنہ برتا جائے ، بیٹسمین میں چونکہ مین کا لفظ آتا ہے اِس لئے یہ مناسب نہیں، بعض بے حدحساس خواتین کی اِس سے دل آزاری ہوسکتی ہے، جبکہ بیٹر کی کوئی جنس نہیں ہوتی اِسلئے یہ ٹھیک ہے ۔ اِس منطق پر لاحول ہی پڑھی جا سکتی ہےکیونکہ اِس سے زیادہ احمقانہ تاویل ممکن نہیں ۔بندہ پوچھے کہ اگر اتنی ہی حساسیت ہے تو مرد بلے بازکو بیٹسمین اور عورت کو بیٹس وومن کہہ لیں !کیونکہ اگر لفظ مین فساد کی جڑ ہے تو پھر کل کلاں کو یہ اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے کہ اکیلے مین سے بھی جنسی امتیاز جھلکتا ہے سو اِس کا استعمال ترک کرکے کچھ ایسے متبادل الفاظ بولے جانے چاہئیں جن سے جنس کا پتا نہ چل سکے جیسے individual، person، people، وغیرہ۔

سچ پوچھیں تو میں آنے والے دور میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ مین کا استعمال صرف بول چال میں ہی نہیں بلکہ روز مرہ زندگی میں بھی کم ہوجائے گا اور عین ممکن ہے کہ سائنس اتنی ترقی کرجائے کہ خواتین کو جیتے جاگتے بندے کی ضرورت ہی نہ رہے ، سائنس انہیں ایک ایسا شوہر مہیا کر دے جو اُن کا ہر حکم بجا لائے ، اُن کے اشاروں پر ناچے اور کبھی کوئی شکوہ شکایت زبان پر نہ لائے۔ویسے اللہ کو جان دینی ہے ،اپنے ہاں زیادہ تر شوہر اسی قسم کے ہیں، انہوں نے صرف ‘مردانگی ‘کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ مجھے تو اب مردانگی جیسے الفاظ لکھتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں کسی حساس عورت کو برا نہ لگ جائے اور وہ مجھے gender biasedہونے کا طعنہ نہ دے ڈالے۔اب تو ہم اِس قسم کے محاورے بھی نہیں استعمال کرسکتے کہ کیا تم نے ہاتھوں میں چوڑیاں پہن رکھی ہیں یا مرد بنو مرد، وغیرہ، وغیرہ۔سنا ہے کہ مغرب میں اب پرانی کتابوں کی تدوین کرکے انہیں جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے ، اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مصنف نے کہیں کسی کی مردانگی کی تعریف کی ہے یا کہیں ہم جنس پرستی پر طنز کیا ہے تو اسے حذف کردیا جائے گا۔ہمارے ہاں اگر یہ رواج چل پڑا تو پوری اردو شاعری کو رد کرکے اسے نئے سرے سے لکھنا پڑے گا۔ مثال کے طور پر راشد کی مشہور زمانہ نظم میں جہاں لفظ آدمی آتا ہے اسے تبدیل کر کے عورت بنانا پڑے گا اورپھر مصرع یوں ہوجائے گا کہ ’’عورتوں سے ڈرتے ہو؟ عورتیں تو تم بھی ہو، عورتیں تو ہم بھی ہیں۔‘‘کوئی پتا نہیں کہ عورتیں اِس پر بھی تلملا اٹھیں۔امریکی اداکار ٹام ہینکس نے کتابوں کی اِس قسم کی تدوین کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے ۔ چلیں اچھا ہے کوئی تو بولا ، ہم بولتے تو کہتے کہ کیریکٹر ڈھیلا ہے۔

آج کے کالم سے اگر آپ میں سے کسی نے میرے بارے میں یہ رائے قائم کی کہ میں male chauvinist ہوں یا نسل پرست ہوں تو میں سمجھوں گاکہ میری ساری محنت اکارت گئی ۔میں تو صرف اِس بات کا افسوس کر رہا ہوں کہ اب ہم نیک نیتی سے وہ لطیفے بھی نہیں سنا سکتے جن پر چند سال پہلے تک ہم کھل کر قہقہے لگاتے تھے ، اب تو ہر جملہ لکھنے کے بعد دس مرتبہ سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں کوئی فقرہ کسی کی نسل، جنس، قبیلے، ذات، مذہب یا رنگ پر طنز کے زمرے میں نہ لے لیاجائے ۔میں ہر گز نہیں سمجھتا کہ کسی کی کمزوری کو بنیاد بنا کر مزاح پیدا کیا جائے جیسے کہ ہمارے ہاں اسٹیج ڈراموں میں خواجہ سراؤں یامعذوروں کا مذاق اڑایا جاتا رہا، لیکن اتنی آزادی ضرور ہونی چاہئے کہ ہم اچھے اورتخلیقی جملے اور لطیفے کی داد دیں اور محض اِس وجہ سے حساسیت کا شکار نہ ہوجائیں کہ اِس میں لفظ ’مین‘ آتاہے ۔ویسے مین تو اسپائڈر مین میں بھی آتاہے، اب دیکھتے ہیں کہ اسپائڈر وومن فلم کب بنتی ہے۔۔(بشکریہ جنگ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں