geo news mein internal audit

ہراسمنٹ پر ایکشن لیکن۔۔اہم معاملات نظرانداز کیوں؟؟

تحریر: علی عمران جونیئر۔۔

جیو نیو میں ہراساں کرنے پر ڈیپارٹمنٹل ہیڈ کو برخواست کیا گیا اور ایم ڈی صاحب کی جانب سے لوگوں کو خطاب میں بتایا گیا اور ساتھ ساتھ کہا گیا کہ ہم نے بائیس تئیس سال میں ایک ایسا ادارہ بنایا جس میں کسی کو بھی ہراساں کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ لوگ ادارے میں رہ کر بھرپور کام کریں اور ایک دوسرے کا احترام کریں۔ محفوظ ماحول فراہم کرنے سے خواتین اور حضرات دونوں کو ہی فائدہ ہوتا ہے تو ہم نے بھی ایسا نظام مرتب کیا کہ ایک محفوظ ادارہ بناکر لوگوں کو سہولیات فراہم کی جائیں ۔ ایم ڈی صاحب نے خطاب میں کہا کہ ہراساں کرنے پر برخواست ہونے والے شخص کی معاملے پر مجھے ذاتی طور پر بہت شرمندگی ہے کہ  اس طرح کے کام میرے ادارے میں ہوتے رہے اور میرے علم میں نہیں آئے ۔  جبکہ ایم ڈی صاحب کے دروازے سب کے لئے کھلے رہے مگر اپنے رعب کی وجہ سے لوگو ان کے کمرے میں جانے سے کتراتے ہیں۔ ہم ایک ایسا ماحول قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس میں خصوصی طور پر بہت زیادہ خواتین کو ایک ایسا ماحول فراہم کیا جائے جہاں وہ پوری آزادی سے کام کریں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ کسی کو پسند نا پسند کرنا لوگوں کا اپنا ذاتی معاملہ ہے اور جیو نیوز میں ایسے بہت سے لوگوں نے ایک دوسرے سے شادی کی اور ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔ اظہر عباس صاحب نے خطاب میں کہا کہ کسی بھی سپروائزر کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائیگی کو اپنے ماتحت کے ساتھ ذاتی پسند نا پسند پر زیادتی کرے۔ اگر کوئی ہمارے ماحول میں آزادی سے کام نہ کرپائے تو یہ ہماری ناکامی ہوگی۔ جنسی ہراسگی خصوصی طور پر خواتین کے ساتھ جنسی ہراسگی کے معاملات پر جیو نیوز کے سی ای او میر ابراہیم  رحمن، میرا یعنی اظہر عباس کا، اور ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ ذوالفقار صاحب کی اس پر برداشت بالکل نہ ہونے کے برابر ہے (یعنی ٹالرنس لیول زیرو ہے)۔

 ٹاون ہال میٹنگ کی اہم بات یہ کہ اس میں  جیو نیوز کے کنٹرولر نیوز ان پٹ بھی اس میں کھڑے تھے۔ ان کا ذکر کرنا یوں اہم ہے کہ انہوں نے ہراسگی کی شکایت کرنے والی خاتون کو کہا تھا کہ یہ کیس واپس لے لیں کیوں کہ تمہارے لئے مشکل ہوسکتی ہے۔ انہوں نے شکایت کرنے والی ایک خاتون کوزور دے کر کہا کہ تم ان صاحب کے خلاف کیس واپس لو اور ہوسکتا ہے کہ آپ (شکایت کرنے والی ایک لڑکی) ایک ایسے مقام پر پہنچ جائیں جس میں آپ کو کوئی راستہ نہیں ملے گا یعنی ڈیڈ اینڈ ہوجائیگا۔ شکایت کرنے والی ایک لڑکی نے تو اس اعلیٰ عہدیدار  کو صاف صاف کہا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہے اور میں اپنے حقوق کے لئے لڑنا جانتی ہوں اور اپنے آپ کو محفوظ کرنا جانتی ہوں۔ اس لڑکی نے صاف صاف کہا کہ اگر ایسا موقع آیا جس ویوار میں مجھے بند کیا جائیگا میں اسے پھلانگ کر آگے چلی جاونگی۔ ٹاون ہال میں خطاب کرتے ہوئے ایم ڈی نے اس بات پر کہا کہ اس سے زیادہ خطرناک صورتحال نہیں ہوسکتی کہ کوئی بھی سینئرآدمی (یعنی  کنٹرولر نیوز ان پٹ ) اپنے کسی جونئیر کو کہے کہ کیس چھوڑ دو تمہاری نوکری تیل ہوسکتی ہے۔ ایم ڈی نے پھر زور دیکر کہا کہ اس سے کوئی خطرناک بات نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ تمام سپر وائزرز کو اپنے رویوں پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اظہر عباس صاحب کو بہت سے معاملات کا علم تھا مگر بہت سے معاملات ان کے علم میں بھی نہیں ہوتے ہیں۔ ادارے کے ملازمین نے اپنے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ ایم ڈی، سی ای او، اور ایچ آر کو چاہیئے کہ وہ سپروائزرز پر نظر رکھیں کہ کیا ہورہا ہے، ایسا نہ ہو کہ ایچ آر ہیڈ اپنی دوستی یاریوں میں سپروائزرز کی زیادتی کو مسلسل نظر انداز کرتے رہیں اور یہ بھی نہ دیکھیں کہ کس کی ترقی کس بنیاد پر ہورہی ہے اور کسی کی تنخواہوں میں اضافہ ہورہا ہے اور کس کی تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی ڈیوٹی ایسی لگائی جاتی ہیں جس میں  ورکرشدید پریشان ہوں۔ سپروائزرز اپنے جونئیر کو تنگ کرنے یا ان سے اپنی مرضی کے کام کروانے کے لئے من مانی کرتے ہیں اور لوگوں کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔  جیو میں کام کرنے والےبہت سے پروفیشنل لوگ تو ان زیادتیوں کی خلاف چھوڑ کر گئے۔ ملازمین اتنے ناراض نظر آتے ہیں کہ وہ تو اکثر یہ کہتے سنتے ہیں کہ ایچ آر ہیڈ تو خود پوری طرح اس کمپنی کے ملازم ہوکر اپنے بیشتر ذاتی کام یہاں کے دوسرے ملازمین سے کرواتے ہیں اور ساتھ ساتھ دوسری کمپنیوں میں شئیر لیکر ان میں بھی حصہ دار بنے ہوئے ہیں۔ ایچ آر ہیڈ ایسی کمپنیوں میں حصہ دار ہیں جنہیں اپنے بہت سے کام جیو نیوز میں خبر چلواکر نکلوانا پڑتے ہیں۔

ملازمین نے خود بتایا کہ جیو نیوز میں حالات اتنے خراب ہیں کہ ہر طرف ہراسگی کے معاملات ہیں، آٹھ سال سے کوئی انکریمنٹ نہیں لگا، مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن تنخواہوں میں اضافے کا انتظامیہ سوچ بھی نہیں رہی۔لوگ مشکلات میں زندگی گزار رہے ہیں اور سپروائزر کی تنخواہیں بڑھا بڑھا کر ادارے کو چلایا جارہا ہے، جیسے جس شخص کو ہراسگی کے معاملات پر نکالا گیا تو انہوں نے کچھ عرصہ قبل اپنے ایک ملازم کی زوجہ کا ہاتھ پکڑا جس میں وہ چھوٹا سا ملازم ان کے خلاف آواز بھی بلند نہیں کرسکا، اسی طرح دوسرے ڈیارٹمنٹ کے ہیڈ شکایت کرنے والوں کو دھمکاتے رہے ہیں۔ ادارے کو دیکھنا چاہیئے کہ سپروائزر کس طرح کی ڈیوٹی روسٹرز بنارہے ہیں کس طرح لوگوں کی ترقی کررہے ہیں اور کس طرح لوگوں کو استحصال کررہے ہیں، مگر ادارے کو دیکھنے والا کوئی نہیں ہے اور جنہیں ان سارے معاملات پر نظر رکھنی ہے وہ وہ خود دوسرے کاروبار کرنے اور دوسرے اداروں میں کام کرنے کے لئے اپنی سارے طاقت لگارہے ہیں۔ ہیڈ آف آوٹ  پٹ تو کسی بھی معاملات میں ٹانگ ہی نہیں اڑاتے  کیونکہ وہ اپنے معاملات میں ایسے ماہر ہیں وہ بھی اوپر کے باسسزکے ہاتھوں سے چلتے ہیں کیونکہ انہوں نے بھی اتنے لوگوں کے ساتھ زیادتیاں کی ہیں اور اینکروں اور دوسرے لوگوں کی ایسی ایسی ڈیوٹیاں لگائیں کہ یا تو وہ ان کی بات مان لیں یا ادارہ چھوڑ جائیں ورنہ وہ کالے پانی کی سزا کاٹتے رہیں گے۔

ادارے میں سپروائزرز کا ایسا گٹھ جوڑ ہے جو ایک دوسرے کو مضبوط کرنے میں کردار کچھ اس طرح سے ادا کرتے ہیں کہ ایک دوسرے کے ڈیارٹمنٹ میں کام کرنے والے ملازمین کو ادھر ادھر کرتے رہتے ہیں تو ترقی کے وقت کاغذوں پر وہ کسی اور سپروائزر کے ماتحت ہوتے ہیں اور کام کسی اور سپروائزر کے اندر کررہے ہوتے ہیں۔ ایچ آر یا مالکان ایک ایک بندے کا ریکارڈ چیک کریں گے تو اس طرح کی زیادتیوں کا بخوبی علم ہوجائیگا۔ جیوملازمین نے عمران جونیئر ڈاٹ کام کو بتایا کہ  ان کا بتانے کا مقصد یہ ہے کہ صحافتی ادارے میں اچھا نام رکھنے والا ادارہ اپنے معاملات بھی اچھی طرح سے چلائے اور جیو نیوز آج بھی وہ ادارہ ہے جہاں سب سے زیادہ پروفیشنل صحافی کام کرتے ہیں۔ اس وجہ سے مالکان کو سوچنا چاہیئے کہ وہ اپنا نام چند ملازمین کے پیچھے خراب کرنا چاہتے ہیں یا وہ اپنا نام بچانے کے لئے کوئی کردار ادا کرتے ہیں اور زیادتی برداشت کرنے والوں کو موقع دیتے ہیں کہ وہ جیو میں ہوں یا نہ ہوں وہ نام لیکر شکایت کریں اور پوری شکایت کی تحقیق کرکے پرانے معاملات کو سدھارتے ہوئے کام کیا جائےگا اور ادارے کو مضبوط بناکر شریف النفس اور پروفیشنل افراد کے حوالے کیا جائے گا جس میں جیو کا نام اور اوپر جائے۔(علی عمران جونیئر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں