تحریر: ڈاکٹر صغرا صدف۔۔
گزشتہ دنوں صبح بیدار ہوتے ہی موبائل پر نان اسٹاپ میسجز کی ٹک ٹک سے خود کو ایک تگڑے واٹس ایپ گروپ کا حصہ دیکھ کر عجیب لگا، اس میں کئی بڑے صحافیوں ، تجزیہ نگاروں اور کالم نگار وں کی پروفائل تصویریں بھی جگ مگ کر رہی تھیں ، کوئی دو گھنٹے بعد گروپ میں جھانکا تو ایڈمن صاحب جعلی وڈیو کے ساتھ ساتھ عظمیٰ بخاری ، مریم اورنگ زیب ، حنا بٹ اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے بارے میں مسلسل غیراخلاقی گفتگو فرما رہے تھے ۔گروپ کا کوئی اور فرد اس گفتگو میں شریک نہیں تھا ۔دیکھتے دیکھتے انھوں نے فیس بک میسنجر کا ایک اسکرین شاٹ بھیجا جس میں ان کے دوست نے اْن سے بھی گھٹیا گفتگو کی ہوئی تھی ۔ میں نے ویری سیڈ very Sadلکھ کر گروپ چھوڑ دیا ۔تھوڑی دیربعد اس ایڈمن کا واٹس ایپ آڈیو پیغام ملا،سن کر میری روح دہل گئی۔اس نے خواتین کی تذلیل کرنے والے اعلیٰ مقاصد کے حامل گروپ کو چھوڑنے پر مجھے جو گالیاں دیں ، الزامات لگائے اور کردارکشی کی وہ ایک طرف کہ انسان خود کو جانتا بھی ہے اور پہچانتا بھی ۔اصل پریشانی کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ اسے حق سچ اور انصاف کی جنگ قرار دیتے ہوئے میرے جیسے ان سب لکھاریوں پر یزیدیت اور کفر کے فتوے بھی لگا رہا تھا جو اس مہم میں اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے ۔اسے یہ بھی افسوس تھا کہ اْس نے مجھے انٹلیکچویل سمجھ کر اس خاص گروپ کا حصہ بنایا مگر میں نے اس فراخدلانہ پیش کش کو جھٹلا کر نہ صرف کفر کا ارتکاب کیا بلکہ اْس کے اندازوں کو غلط ثابت کیا کیونکہ وہ مجھے کافی اچھا انسان سمجھتاتھا ۔اسے فون کیا تو کاٹ دیا جب تک میرا وٹس ایپ میسج جاتاوہ مجھے بلاک کر چکا تھا۔شدید حیرانی اور فکرمندی میں اس کا فیس بک پروفائل دیکھا وہ میرے دوستوں کی فہرست میں نہیں تھا ۔ تصاویر میں مہذب لباس و اطوار اوڑھے ہوئے کہ گمان بھی نہ کیا جاسکے کہ وہ اپنی ماں کی عمر کی عورت کے ساتھ اس طرح گفتگو کر سکتا ہے ۔دوسروں کو برا بھلا کہہ کربلکہ حملہ کر کے انھیں اپنا ہمنوا تو نہیں بنایا جاسکتا مگر خاموش کیا جاسکتا ہے اور اس وقت یہی تدبیر برتی جارہی ہے کہ جو آپ کی ہاں میں ہاں نہ ملائے ، جو دشنام طرازی کا حصہ نہ بنے اس پر دھاوا بول دو، اس واردات کے پس ِپشت خوف ہے کہ گالی دینے والوں کے عمل کی تکڑی خالی ہے ، دلائل سے موازنہ اور مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ، گالی کی مدد سے خیالی پلاٹ پر تصویر کشی جاری ہے۔ اس حقیقت کا ادراک مجھے تب ہوا جب میری بیٹی نے مجھے آوارہ جانوروں کی نفسیات پر لیکچر دیا ، ہوا یوں کہ دو دن پہلے اس کی دوست نے اسے ایک بلی تحفہ دی ، میں نے کبھی بلی کْتا گھر میں نہیں رکھے اسلئے مجھے تھوڑا سا عجیب لگا ۔بیٹی نے بتایا کہ بلی اور کتا خونخوار جانور نہیں ہیں جو آوارہ کتے بلیاں حملہ کرتے ہیں ان کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوا ہوتا ہے انھیں کسی انسان نے مارا پیٹا ہوتا ہے اسلئے وہ انسان کو دیکھتے ہی خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے بھونکنے ، غْر?انے اور کاٹنے کو دوڑتے ہیںجبکہ پالتو جانوروں نے ایسا کوئی ماحول نہیں دیکھا ہوتا ،اسلئے وہ کبھی حملہ نہیں کرتے ۔انسانوں میں دوسروں کے خلاف بدزبانی کے پیچھے اصل محرک اپنی اصلیت کے ظاہر ہونے کا خوف ہوتاہے ۔ادب کاکاروبار کرنے والے اور نوجوان شاگردوں کے خیالات چرانے والےچور ادیبوں شاعروں کے ہاں بھی ایسے منفی اور کینہ پرور رویے عام ہیں جو ہمیشہ خود لکھنے والوں پر آوازے کستے ہیں ، طنز کے تیر چلاتے ہیں خوف یہی کہ کوئی پلٹ کر انھیں آئینہ نہ دکھا دے ۔ڈالروں اور پاؤنڈ وں کے عوض غزلیں واٹس ایپ کرنے والوں نے ایسے افراد کو صاحب کتاب بنا دیا ہے جو فی البدیہہ ایک مصرع نہیں کہہ سکتے اور نہ ایک صفحہ لکھ اور بول سکتے ہیں۔منفی رویے کے حاملین کی اکثریت وہ ہے جن کے آبائو اجداد کو پیشوں کے باعث طاقتوروں کی غلامی کرنا پڑی ۔جبریہ تابعداری کینہ پروری اور حسد پیدا کرتی ہے ۔والد صاحب کہتے تھے ، ان لوگوں کے پڑھ لکھ جانے کے بعد بھی صدیوں کا جمع غبار نکلنے اور سوچ کے شفاف ہونے میں ایک ڈیڑھ صدی لگ جاتی ہے ۔ میں سمجھتی ہوں اگر انسان جبلت کے ہاتھوں کھلونا بننے کی بجائے کوشش کرے تو اپنی شخصیت کے منفی پہلو کو مثبت میں ڈھال سکتا ہے۔ واٹس ایپ گروپ والے اس جنونی فرد کا واٹس ایپ میسج ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے ، اس کی بنیاد پر اس کےخلاف کوئی کارروائی تو ہونی چاہئے ، کیوں کہ پاگل اور نفسیاتی مریض کا علاج کیا جانا ضروری ہوتا ہے ۔(بشکریہ جنگ)۔۔