تحریر: شکیل احمد بازغ
وزیر اعلٰی پنجاب یوم آزادی کی تقریب کے شرکاء سے مخاطب ہوتے ہوئے اقلیتوں پر پاکستان میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ ڈھائے گئے مظالم کا قریباً ہچکیاں لے کر مقدمہ لڑ رہی تھیں۔ اقلیتوں کی ڈھارس بندھا رہی تھیں۔ یہ وہ مقدمہ ہے جس کا نہ سر نہ پاؤں کم از کم آزادی کے موقع پر بے محل معلوم ہوتا ہے۔ جیسے کوئی بھی سیاسی کارڈ کھیلتا ہے ایسے ہی موصوفہ اقلیتی اور فیمینزم یعنی حقوق نسواں کا کارڈ ہر جگہ کھیل کر خود کو عالمی آقاؤں کی وفادار ثابت کرنے پر توجہ دیئے ہوئے ہیں۔ تاکہ نوکری جاری رہے۔ جہاں بھی فنِ خطابت دکھانے کا موقع ملے وہاں موصوفہ یہی دو کارڈز کھیلتی نظر آتی ہیں۔ ایسے جیسے پاکستان کا ہر مسئلہ یہی مسئلہ ہے۔
آج بغور دیکھا تو دن کی مناسبت سے سبز ہلالی پرچم کے رنگوں سبز اکثریتی اور سفید اقلیتی لباس زیب تن کیا تھا۔ جس میں حقیقت کے برعکس سبز یعنی اکثریتی رنگ حصولِ برکت کیلئے دوپٹے کے کنارے پر ہلکا سا دکھائی دے رہا تھا۔باقی سارا لباس اقلیتی رنگ یعنی سفید تھا۔ حکمران طبقے کی ہر ادا اک پیغام ہوتا ہے۔ وہ آج اقلیتوں کی محبت میں زیادہ سرشار محسوس ہو رہی تھیں۔
کیا ہی اچھا ہوتاآج فلسطین کی اکثریتی مسلم آبادی پر اقلیتی گروہ یہودیوں اور انکے سہولتکار مغربی کفار پہ تبرٰی بھی بھیجا جاتا۔ کشمیر کے اکثریت پہ ہندوتوا سوچ کے مظالم کا بھی ذکر ہوتا۔ بھارت میں اقلیتوں پہ مظالم کا بھی ذکر ہوتا۔ مظلوم شہید فلسطینی عورتوں بچوں کی ہمت کو خراج بھی پیش کیا جاتا۔ پاکستان بنانے کے پیچھے اسلام کیلئے جانیں دینے والوں کے نظریات کو نمایاں کیا جاتا۔ امت مسلمہ کے اتحاد کی بات ہوتی۔ جہاد کا ذکر ہوتا۔ لیکن یہاں صرف اقلیت پہ مظالم کا ڈھنڈورا پیٹ کر تقویت پاتے دینی رجحانات کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس کیلئے جشن آزادی جیسے موقع پر اقلیتوں پر نہ ہونے والے مظالم پر بات کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے گلی محلوں اطراف میں اقلیتیں آباد ہیں مسیحی ہمارے گھروں دفاتر بازاروں میں کام کاروبار کررہے ہیں کسی کو کوئی مسئلہ نہیں اکا دکا واقعات کو اچھال کر پورے پاکستان کو اقلیتوں کا جہنم ثابت کرنے میں ہمارے اپنے حرام خور عالمی استعماری قوتوں پر پلنے والے سر سے پاؤں تک کرپشن میں ڈوبے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے یہ بدمعاشیہ گروہ ہیں۔ جو حقیقی پاکستانیوں کو آزادی کی سانس نہیں لینے دے رہے۔ قادیانیت کا مقدمہ دراصل لڑا جارہا ہے۔ اقلیت سے مراد مسیحی و ہندو برادری کم اور قادیانیت زیادہ ہے۔
نظریہءِ پاکستان یعنی اسلام کا پرچم ہر پرچم ہر غالب ہے۔ دراصل پاکستان کا پرچم ہی اسلام کا پرچم ہونا چاہیئے اور اسی تاثر کو اجاگر کرنا چاہیئے۔ لیکن صد افسوس سبز رنگ کو پھیکا/ کم اور ماند کرکے اس مملکتِ خداداد کو نظریہءِ اسلام سے چھٹکارا دینے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے ۔ تاکہ پاکستان ہر طرح سے مغربی تہذیب سے ہم آہنگ دکھائی دے۔ اور اسے صرف اقلیتوں کا پاکستان بنانے پر زیادہ آمادگی کا اظہار ہورہا ہے۔ حالانکہ پاکستان سب کا ہے لیکن مغربی آقاؤں کے عالمی ایجنڈوں کو پروان چڑھانے میں ہمارے امپورٹڈ حکمران (امپورٹڈ اس لیئے کہ اپنے مشکل وقت میں یہ جس گھر کو جاتے ہیں وہ پاکستان نہیں مغرب ہے) اپنے جذبات احساسات مقاصد یہاں تک کہ پہناوے بھی سیاسی کرلیتے ہیں۔
عرصہ دراز سے پاکستان کو بدلنے کی کوشش کی جارھی ہے۔ یہاں اسلام کے نام لیواؤں مذہبی طبقات کو ہر محاذ پر کچلنے کی بھرپور کوشش ہورہی ہے ہدف یہی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے بجائے عالمِ کُفر کے قوانین کے تحت ایک کالونی بنا دیا جائے جہاں اسلام پر اقلیتی مذاہب کے ماننے والوں کا طوطی بولتا ہو اور اسلام پرست ہراساں رہیں سہمے رہیں لب نہ کھولیں پاکستان کو اسلام سے منسوب نہ کریں نظریہءِ پاکستان کو زندہ نہ رکھ سکیں۔
یہ سب نہایت سرعت اور غیر محسوس طریقے سے ہورہا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے انکے لیئے اکثریت کا گلہ دبا کر اقلیتوں کو پاکستان سونپ دینا ہی اولین مقصد ہے۔
پاکستان کو اسلام کا ہی قلعہ بننا ہے جہاں سے ہر اسلام دشمن شخص گروہ جماعت کا انخلاء ہوکر رہنا ہے۔ کیونکہ پاکستان اسلام سے ہے۔ اور امن اسے جو اسلام اور نظریہءِ پاکستان کا دشمن نہ ہو۔ اقلیتیں پاکستان میں رہیں
پاکستانی وہی جو اسلام اور ختم بوت ﷺ کے خلاف نہ کھڑا ہو۔
یہی آزادی کا پیغام ہے اور یہی نظریہءِ پاکستان ہے۔
پاکستان اسلام کی بنیاد یعنی
ختمِ نبوت ﷺ کی حفاظت کیلئے معرضِ وجود میں آیا تھا نہ کہ قادیانیوں کے باطل من گھڑت نظریات کے غلبے کیلئے۔
سب حرام خور دشمن مٹ جائیں گے۔ اسلام کا پاکستان تا قیامت باقی رہے گا۔ واللہ اعلم بالصواب۔۔(شکیل احمد بازغ)۔۔