media apne per par kulhari mar rha hai

حامد میر کو ملک چھوڑنے سے 2 بار کس نے روکا؟

سابق جسٹس اور  چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم گزشتہ دنوں دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں اور اب ان کے بارے میں سینئر صحافی حامد میر نے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور یہ بھی انکشاف کیا کہ دو مرتبہ فخر الدین جی ابراہیم نے انہیں پاکستان نہ چھوڑنے کا مشورہ دیا۔روزنامہ جنگ میں حامد میر نے لکھا کہ ’’وہ اپنی مثال آپ تھے۔ اُن جیسا کوئی دوسرا نہیں ہے۔ وہ مجھے نہ ملتے تو شاید میری زندگی آج بہت مختلف ہوتی اور میں پاکستان سے باہر ہوتا لیکن یہ فخر الدین جی ابراہیم تھے جنہوں نے دو مرتبہ مجھے پاکستان نہ چھوڑنے کا مشورہ دیا۔حامد میر نے اپنے کالم میں لکھا کہ۔۔نگران حکومت میں کچھ لوگ بروقت انتخابات کے بجائے احتساب کی طرف جانا چاہتے تھے۔ حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ انتخابات ایک سال بعد کرا لئے جائیں لیکن فخرو بھائی ڈٹ گئے۔اُنہوں نے ملک معراج خالد کی نگران حکومت چھوڑ دی اور یہ حکومت بروقت انتخابات کرانے پر مجبور ہوئی۔ 2012میں فخر الدین جی ابراہیم نے مجھے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف اُنہیں چیف الیکشن کمیشنر بنانا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر میں خاموش ہو گیا۔فخرو بھائی نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا ’’تُو بولتا کیوں نہیں؟‘‘ میں نے بڑے ادب سے کہا آپ اس چکر میں نہ پڑیں کیونکہ چیف الیکشن کمیشنر بڑا بے اختیار ہوتا ہے۔ الیکشن میں دھاندلی ہوگی اور آپ کا نام خراب ہوگا۔ یہ سن کر وہ خاموش رہے۔ میں نے کہا کہ مزید دوستوں سے مشورہ کر لیں۔ وہ مان گئے۔حکومت اور اپوزیشن فخر الدین جی ابراہیم کے علاوہ کسی اور نام پر متفق نہ ہو سکے اور پھر فخرو بھائی کو جمہوریت اور پاکستان کے واسطے دیکر یہ عہدہ قبول کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ آخر وہی ہوا جس کا خدشہ میں نے ظاہر کیا تھا۔ 2013کے انتخابات میں دھاندلی کا شور مچ گیا۔

فخرو بھائی نے اس دھاندلی کی تحقیقات کیلئے بہت کوشش کی لیکن نواز شریف حکومت نے ساتھ نہ دیا لہٰذا وہ اس عہدے سے بھی مستعفی ہو گئے اور پھر گوشہ نشینی اختیار کر لی۔وہ پاکستان سے صرف محبت نہیں کرتے تھے بلکہ پاکستان کی پرستش کرتے تھے۔ 1947میں پاکستان بنا تو وہ احمد آباد گجرات میں ’’ودیا پنتھ‘‘ کے طالبعلم تھے۔ یہ یونیورسٹی مہاتما گاندھی نے بنائی تھی اور وہ اس یونیورسٹی کے چانسلر بھی تھے۔والدین کا خیال تھا کہ بیٹا ایل ایل بی کر لے تو پاکستان چلا جائے۔ فخرو بھائی نے ایل ایل بی کیا اور 1949میں پاکستان آ گئے۔ سندھ مسلم لا کالج کراچی سے ایل ایل ایم کیا اور ہمیں پڑھانا شروع کر دیا۔فخرو بھائی زندگی کے آخری دنوں تک حسن ناصر کو یاد کیا کرتے اور کہتے تھے کہ اگر پاکستانی معاشرہ حسن ناصر کی موت پر اٹھ کھڑا ہوتا تو کبھی لاپتا افراد کا مسئلہ پیدا نہ ہوتا۔

مارچ 2007میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی برطرفی کی خبر میں نے جیو نیوز پر بریک کی تو مجھے فخرو بھائی کا فون آیا۔ اُنہوں نے کہا کہ بیٹا سچ بولنے اور مزاحمت کا وقت آگیا ہے، اگر ہم نے مشرف کو یہاں نہ روکا تو وہ آئین کو بھی برباد کرے گا۔نومبر 2007میں مشرف نے آئین معطل کر دیا۔ مجھ پر پابندی لگا دی گئی، ہمارے صحافی دوست شکیل ترابی کے بچوں کو اسکول میں گھس کر مارا گیا، پھر میرے بچوں پر حملہ ہوا۔ایک یورپی ملک نے سیاسی پناہ کی پیشکش کی، ایک بڑی غیر ملکی میڈیا کمپنی نے نوکری کی پیشکش کی تو میں فخرو بھائی کے پاس پہنچا۔ انہیں سب پتا تھا کہنے لگے جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء کا مارشل لا زیادہ خطرناک تھا، زیادہ مشکل تھا، مشرف کی ایمرجنسی کا مقابلہ کرو، راہِ فرار مت اختیار کرو۔ میں نے کہا کہ میری وجہ سے بچوں کی جان کو خطرہ ہے۔بولے، بچوں کو باہر بھیج دو۔ میں نے کچھ عرصہ کیلئے بچوں کو پاکستان سے باہر بھیج دیا اور مشرف کی پابندیوں کا سڑکوں پر مقابلہ کیا اور ایک دن فخرو بھائی نے صحافیوں کے جلوس میں شامل ہو کر ہماری حوصلہ افزائی کی۔ اُن کا جسم بوڑھا ہو چکا تھا ہمت جوان تھی۔

انیس اپریل 2014کو کراچی میں مجھ پر حملہ ہوا تو فخرو بھائی آغا خان اسپتال کراچی میں مجھے دیکھنے آئے۔ اُس دن کچھ لوگ مجھے پاکستان چھوڑنے پر مجبور کر رہے تھے۔نجانے کہاں سے ایک ایئر ایمبولینس آکر کراچی میں کھڑی تھی اور میرے علاج کے ذمہ دار ڈاکٹر انعام پال مجھے سمجھا رہے تھے کہ آپ کی زندگی بچائی جا چکی ہے، آپ کا علاج پاکستان میں ممکن ہے لیکن میں آپ کو باہر جانے سے نہیں روک سکتا۔اِس موقع پر فخرو بھائی نے مجھے کہا تم باہر جاکر کیا کرو گے؟ میں نے جواب دیا ایک کتاب لکھوں گا۔ فخرو بھائی نے کہا ہاں میں جانتا ہوں تیری کتاب سپرہٹ ہو گی تجھے بہت پیسہ ملے گا تو اپنے دشمنوں کا منہ کالا کر دے گا لیکن تیرا پاکستان سے رشتہ ٹوٹ جائے گا۔پاکستان سے مت جا۔ پھر اُنہوں نے مجھے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا تو میرا بہادر بیٹا ہے، تو میرا فخر ہے، تو فخرو کا فخر ہے، تو پاکستان سے نہیں جائے گا۔ فخرو بھائی رخصت ہوئے تو میں نے ڈاکٹر انعام پال کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا کہ میں کہیں نہیں جائوں گا اور پھر اُنہوں نے ایک صاحب کی مجھ سے ملاقات پر پابندی لگا دی۔

فخرو بھائی دنیا سے چلے گئے لیکن اُن سے وابستہ یادیں میرا سرمایہ ہیں۔ وہ چلتا پھرتا پاکستان تھے اور ہمیشہ کہتے تھے کہ پاکستان کا مستقبل بہت روشن ہے کیونکہ نئی نسل زیادہ ایماندار اور زیادہ بہادر ہے۔آج کی نئی نسل کیلئے مشعلِ راہ فخر الدین جی ابراہیم کی زندگی ہے جنہوں نے اپنے اصولوں کی خاطر پانچ اہم آئینی عہدے چھوڑ دیے۔ ان کی طاقت اُن کا کردار تھا، عہدہ نہیں۔ وہ ہماری یادوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے‘‘۔

How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں