تحریر: خالد شہزاد فاروقی۔۔
معروف صحافی،تجزیہ کاراورسینئراینکرپرسن حامد میر نے اسلام آباد میں صحافیوں کے احتجاج میں اپنی’متنازعہ تقریر‘ پر معذرت کر لی ہے تاہم اس حوالے سے ذمہ دار ذرائع کاکہناہے کہ حامد میر نے صحافتی تنظیموں کے سامنے اپنی وضاحت پیش کرتےہوئے ’معافی‘مانگ لی ہے لیکن مارکیٹ میں یہ خبریں بھی گرم ہیں کہ نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز ‘انتظامیہ کی جانب سے ان کے پروگرام کی میزبانی ’چھیننے ‘پر اختلافات برقرار ہیں جبکہ حامد میر کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے پروگرام’کیپٹل ٹاک‘ کی دوبارہ میزبانی کا سردست کوئی ارادہ نہیں ہے۔
یاد رہے کہ دو ہفتے قبل صحافی اسد طور پر ہونے والے تشدد کےخلاف وفاقی دارالحکومت میں موجود صحافیوں نے شدید احتجاج کیا تھا ،اس موقع پر سینئر اینکر پرسن حامد میر ،عاصمہ شیرازی اور منیزے جہانگیر سمیت دیگر نے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت تنقید کی تاہم حامد میر کی جانب سے کی جانے والی تند و تیز اور متنازعہ گفتگو نے سیاسی و صحافتی حلقوں میں تہلکہ برپا کردیا ۔جیو نیوز نے حامد میر کی متنازعہ تقریر کے دو روز بعد اُن کے مشہورپروگرام کی میزبانی بھی عارضی طورپر’چھین ‘ لی تھی۔حامد میر نے احتجاج میں ہونےوالی اپنی گفتگو کے بعد کئی عالمی خبر رساں اداروں کو انٹرویو دیئے جس میں وہ اپنی تند وتیز اور متنازعہ گفتگو پر ’ڈٹے ‘ رہے تاہم اب ان کی طرف سے ’معذرت نامہ‘ سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے ۔
دوسری طرف صحافتی حلقوں میں یہ خبریں بھی گرم ہیں کہ معذرت نامہ سامنے آنے کے بعد حامد میر کو اپنے قریبی ساتھیوں کی جانب سےسخت دباؤ کا سامنا ہے اور اس حوالے سے وہ ٹیکسٹ میسجز کے ذریعےاپنی پوزیشن بھی کلیئر کر رہے ہیں ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ حامد میر نے صحافتی تنظیموں سے معافی مانگی ہےتاہم اپنی ’متنازعہ تقریر‘پرحامد میر کا اپنے ادارے سے معافی مانگنے کا کوئی ارادہ نہیں بلکہ پروگرام کی میزبانی چھینے جانے پر حامد میر کے’جیو نیوز‘کے مالکان اور انتظامیہ سے اختلافات برقرار ہیں۔
حامد میر کی جانب سے معافی نامہ سامنے آنے پرصحافتی حلقوں میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو چکا ہے،بعض سینئر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حامد میر نے اسلام آباد مظاہرے میں ’اچانک ایسی متنازعہ تقریر‘ نہیں کی تھی بلکہ اس ساری ’کہانی کا سکرپٹ‘پہلے سے تیار شدہ تھا اور حامد میر کا کردار محض ایک ’اداکار‘کا تھا اور انہوں نے کہانی کےعین مطابق اپنی ’جاندار اداکاری‘ کے ذریعے ’مطلوبہ مقاصد‘بھی حاصل کر لئے تھے جبکہ ان کا معذرت نامہ بھی اسی طے شدہ ’سکرپٹ‘ کا حصہ ہے ۔
ایک حلقے کا کہنا ہے کہ حامد میر کےاپنے پروگرام کی میزبانی ’ چھینے‘ جانے پر’جیونیوز‘ کی انتظامیہ سے’مبینہ‘ اختلافات محض صحافتی ادارے پر آنے والے ’پریشر‘کو کم کرنے کی ایک تکنیک ہے ،اس میں وہ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں؟آنے والے دنوں میں حقائق منظر عام پر آ جائیں گے تاہم ملکی دفاعی ادارے کے اعلیٰ افسران پر لگائے جانے والے سنگین الزامات اور ’ٹینکوں کے سامنے لیٹنے‘کے دعوے کرنے والے معروف تجزیہ کار چند دن بھی اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی بجائے ’لمبا لیٹ‘جانا معاملے کو مزید مشکوک کر رہا ہے۔
اب اس سارے قضیئے پر ’مٹی پاؤ‘ پالیسی اختیار کرنے کی بجائے حامد میر کے سنگین الزامات کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئے کیونکہ اس ساری کہانی سے پاکستانی فوج کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی ہے اور دشمن ملک نے ہمارے اداروں کا دن رات مذاق اڑایا ہے ۔اس ساری جگ ہنسائی کے بعد اگر اس معاملے پر ماضی کی طرح ’مٹی پاؤ ‘پالیسی اختیار کی گئی تو یقینی طور پر اداروں کی ساکھ پر سوال اٹھیں گے لہذا صحافتی تنظیم کے لیٹر پیڈ پر مانگی جانے والی معافی کو ’کافی‘ سمجھنے کی بجائے حامد میر کے الزامات کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں اور اگر الزامات غلط ثابت ہوں تو پھر حامد میر کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہئے کیونکہ کوئی بھی شخص یا ادارہ آئین اور قانون سے ماورا نہیں جبکہ یہ اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ کل کسی کو بھی کسی ادارے کے خلاف جھوٹے اور من گھڑت الزامات لگانے کی جرأت نہ ہو اور نہ ہی دشمن ملک کو پاکستانی اداروں کا ٹھٹہ لگانے کا موقع ملے۔(بشکریہ ڈیلی پاکستان)۔