تحریر: ناصر جمال۔۔
نوے کی دہائی کے جوبن پر، صحافت سے لاہور میں رشتہ قائم ہوا۔ پروفیشنل صحافی بننے کیلئے ’’صحافتی کاکُول‘‘ میں داخلہ لیا۔ اس کا تقریباً بائیس سال خیال ہی نہیں آیا کہ یہاں محنت، مشقت اور ذہنی عذاب زیادہ ہے۔ جبکہ آمدن محدود ہے۔ برادرم شہزاد فاروقی سے اس موضوع پر خوب نشست رہی۔ نتیجہ یقینی طور پر ہم دونوں کے خلاف ہی آیا۔ یہی سچ ہے کہ ہم صحافت کو آج تک مشن سمجھتے ہیں۔ جبکہ یہ مشن نہیں، دوسرے پیشوں کی طرح ایک پیشہ ہے۔ حقیقت یہی ہے۔ ہمیں بھی ’’شارٹ کٹ‘‘ ملے، آفر ہوئے۔ مگر ہمارےاستادوں نے ہماری تربیت ہی غلط کردی تھی۔ ہم سڑک، سڑک، چلتے رہے۔ لوگ دائیں، بائیں چلے اور رفعتیں اپنا مقدر کرلیں۔ نثار۔ اے میمن سے ذاتی تعلق تھا۔ فواد چوہدری سے فیملی تعلق ہے۔ کبھی خیال ہی نہیں آیا۔ آج تین سال ہوگئے۔ کبھی فواد کے دفتر تک نہیں گیا۔ نام نہاد، انا کے پہاڑ نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ 45سال کی عمر میں پہلی بار بطور ایڈیٹر نام چھپا۔ اب محسوس کرتا ہوں کہ ایسے ’’نشانِ حیدر‘‘ تو، با آسانی حاصل کئے جاسکتے تھے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ’’پروفیشنل ایڈیٹر‘‘ شایداب کئی بھی نہیں چاہئے۔
صحافت کے دشت میں جب لاہور اور کراچی کی خاک چھان رہے تھے۔ تو سامنے دو چیزیں تھیں۔ ’’انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن‘‘ مگر جب اسلام آباد آئے تو، تیسری چیز سے تعارف ہوا۔ وہ ’’فیڈنگ‘‘ تھی۔ وفاقی دارلحکومت میں بڑی ہی صفائی،آسانی اور کامیابی سے، خبریں ’’فیڈ‘‘ کی جاتی ہیں۔ ہمارے اچھے خاصے تجربہ کار لوگ، بڑی ہی آسانی سے یہ ’’فیڈنگ‘‘ لے لیتے ہیں۔ میں نے کتنی ہی بار سیاسی، بابوئوں اور دوستوں کو، اس حوالے سے لاجواب کیا ہے۔ میں نے کہا کہ جناب ، خبر فیڈ کیوں کررہے ہیں۔ سیدھا، سیدھا، مدعے پر آئیں کہ خبر دینی ہے۔ ایک اچھا صحافی وہی ہے جو خبر سنے، پھر اُسے کم از کم تین اپنے معتبر ذرائع سے ’’ری کنفرم‘‘ کرے۔
قلم کار نے کرکٹ گرائونڈز اور سی۔ ڈی۔ اے کے قبضے کےحوالے سے تین سخت ترین کالم لکھےتھے۔ جس میں اسٹیبلشمنٹ پر بھی کڑی تنقیدکی گئی تھی۔ یہ لوگ اتنی شدید تنقید کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ تنقید میرٹ پر تھی۔ اس لئے ملٹری اسٹیبلشمنٹ ناراض نہیں ہوئی۔ بلکہ آرمی چیف کے بحاف پر کرنل شفیق نے شکیل شیخ (ڈائمنڈ کرکٹ گرائونڈ) سے رابطہ کیا۔ کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ کہنے کامقصد ہے۔ کہ سخت تنقید شائستہ اور مہذب الفاظ کے چنائو کے ذریعے بھی کی جاسکتی ہے۔
بات لہجے کی ہے، تہذیب کی ہے
ورنہ سب اہل زباں ہوتے ہیں
(خالد علیگ)
حامد میر نے انتہائی جذبات سے مغلوب ہوکر جو ڈس انفارمیشن(دُر فتنی)چھوڑی ہے۔آپ یقین کریں کہ یہ تھڑے والی انفارمیشن تھی۔ جو کہ وفاقی دارلحکومت میں 2021ء کے اوائل سے باقاعدہ گردش کررہی تھی۔ کوئی بھی معتبر ذریعہ اس کی تصدیق نہیں کررہا تھا۔میرے دوست حاجی قائمخانی نے اسے پہلی بار انتہائی گمراہ کُن، جھوٹی اور حقائق کے منافی ، ’’ففتھ جنریشن ٹول‘‘ قرار دیا۔ کہنے لگے کہ میں جنرل کو میجر کے زمانے سے جانتا ہوں۔ میں نے اس کے بھائی کے انتقال پر وہ منظر بھی دیکھا۔ جب تدفین کے بعد ہم چار پانچ لوگ قبر پر کھڑے تھے۔ پھر ان کی والدہ کی تدفین پر بھی تھا۔ جب بہت سے فنکار، قبرپر لپٹنے کو بے تاب دکھائی دیتے تھے۔ میں نے انھیں بہت قریب سے دیکھا، پرکھا اور اُن کے بارے میں سنا ہے۔ وہ ذاتی زندگی، تعلق اور کردار کے معاملے میں انتہائی مضبوط انسان ہیں۔ اُن پر اُن کے دشمن بھی ایسے گھٹیا الزام نہیں لگا سکتے۔ ایک منظم پروپیگنڈا کے تحت انھیں ٹارگٹ کیاجارہا ہے۔ حاجی صاحب نے کہا کہ کچھ معتبر دوستوں نے بتایا تھا کہ ایک معمولی سا آپریشن ہوا تھا۔ جو کہ اُس گولی کا تھا جو کہ انھیں 1998-99ء میں میجر کے زمانے میں دوران ڈکیتی کراچی، گلستان جوہر میں لگی تھی۔ اس روز بھی خاتون خانہ اُن کے ساتھ تھیں۔ ایک گولی نہیں نکالی گئی تھی۔ وہ جسم کے اندر ہی رہی۔ اس نے کبھی تنگ نہیں کیا۔ گذشتہ برس اُس کا آپریشن ہوا تھا۔پھر میں نے کسی محفل میں حامد میر کو اس حوالے سے بات چیت پر کہا کہ اُن کی معلومات درست نہیں ہیں۔ میرا ذریعہ انتہائی معتبر ہے۔ جنرل صاحب کے مخالفین اور حاسد یہ افواہیں پھیلا رہے ہیں۔ ہمیں ایسی چیزوں کا نہ شکار ہونا چاہئے۔ اور نہ ہی یہ سودا خریدنا چاہئے۔
پھر پتا نہیں کیا ہوا۔ حامد میر دو روز پہلے پھٹ پڑے۔ انہوں نے جو منہ میں آیا وہ کہا۔ ان کی دوسری وڈیو بھی اسی طرح سے خوفناک اور غیر محتاط ہے۔ حامد میر کے کلپ کے بعد پھر حاجی صاحب کا فون آیا۔ وہ مجھ سے ناراض ہورہے تھے۔ کہنے لگے کہ حامد میر نے یہ کیا کہا ہے۔ یہ سو فیصد جھوٹ ہے۔ وہ سفید دِن میں چٹا جھوٹ بول رہا ہے۔ ناصر جمال مجھے اپنی قبر میں جانا ہے۔ حامد میر کے وڈیو کلپ میں رتی بھر بھی سچائی نہیں ہے۔ مجھے تو ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ موصوف بھی کسی ’’لابی‘‘ کے ہاتھوں استعمال ہوگئے۔ یا ہوسکتا ہے کہ ان کا کوئی اپنا ایجنڈا ہو۔ ایک بات مکمل یقین سے کہتا ہوں کہ یہ کہانی مکمل جُھوٹ پر مبنی ہے۔
نواب اکبر بگٹی کے واقعہ کے بعد، اپوزیشن نے اچانک اکبر بگٹی کی لاش کو اپنے کاندھوں پر اُٹھا لیا۔ اس لاش اٹھانے والوں میں محمود اچکزئی سر فہرست تھے۔ میں نے پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں ان سے سوال کیا۔ اچکزئی صاحب، کیا آپ یہ بتانا پسند کریں گے کہ ’’عبدالصمد اچکزئی کے اوپر بموں سے حملہ کروانے کی ایف ۔ آئی۔ آر کس پرکٹی تھی۔ ‘‘وہ کہنے لگے ’’موٹی عقل کے پنجابی چپ رہو۔ میں نے کہاکہ اچکزئی صاحب، آپ اس طرح راہ فرار اختیار نہیں کرسکتے۔ اچکزئی کی حالت دیدنی تھی۔ جی ہاں! قارئین۔ وہ ایف ۔ آئی۔ آر اکبر بگٹی پرکٹی تھی اور اس کے کئی دہائیوں کے بعد محمود اچکزئی ، اپنے والد کو بالائے طاق رکھ کر، اکبر بگٹی کے جنازے کو اٹھائے، پارلیمنٹ میں بین کررہے تھے۔ جی ہاں، سیاست چیز ہی ایسی ہے۔ اس میں آج کے دشمن، کل کے دوست اور آج کے دوست کل کے دشمن ہوتے ہیں۔ زیادہ دُورکیوں جاتے ہیں۔ نواز شریف، زرداری اور عمران خان کی فلم کو دیکھ لیں۔ مولانا فضل الرحمٰن سے لیکر گجرات کے چوہدریوں اور ترین کو دیکھ لیں۔
مشرف کو اس کے اپنے ’’کیانی‘‘نے گرایا۔ یہی کچھ اسکندر مرزا کے ساتھ ایوب خان نے اور پھر ایوب خان کے ساتھ یحییٰ خان اور یحییٰ خان کے ساتھ بھٹو اور بھٹو کے ساتھ ضیاء الحق نے کیا۔ ضیاء الحق طیارہ سانحہ میں بھی تو باہر اور اندر والے ملے ہوئے تھے۔ اور بے نظیر کے ساتھ بھی تو یہی کچھ ہوا۔ اندر اور باہر کے ملاپ کے بغیر کوئی سازش مکمل نہیں ہوتی۔
مگر جنرل فیض حمید کو جس طرح سے ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ وہ بھی انتہائی دلچسپ ہے۔ چارے کے طور پر دو نام نہاد صحافیوں کو استعمال کیا گیا ہے۔ پہلے ابصارعالم تھے۔ دوسرے اسد طور، پہلے کو صحافیوں کی اکثریت اپنا غدار سمجھتی ہے۔ صرف صحافیوں کی اکثریت ہی کیوں، اینکروں کی بھی۔ حامد میر کے جذبات، ان کے حوالے سے کوئی ڈھکے چھپے تو نہیں ہیں۔ حامد میر کو ابصار عالم نے بطور چیئرمین پیمرا 13عدد شوکاز نوٹس کئے تھے۔ جبکہ چند روز پہلے تک یہ لوگ سپریم کورٹ میں خفیہ فنڈز کیس میں اکھٹے تھے۔ ابصار عالم نے انھیں پتا بھی نہیں چلنے دیا اور چیئرمین پیمرا بن گئے۔ انہوں نے اینکروں کے ساتھ تو جو کیا سوکیا۔ وہ تو پورے الیکٹرانک میڈیا کی مشکیں کسنے پارلیمنٹ پہنچ گئے۔ تاریخ کی متنازع ترین قانون سازی، موصوف کرانے چلے تھے۔ وہ تو بھلا ہو، مریم اورنگزیب اور سردار احمد نواز سکھیرا کا، وہ ’’دیوار چین‘‘ بن گئے۔ موصوف تو کام ڈال چکے تھے۔ابصارعالم آج، حامد میر کے شہید ِصحافت ہیں۔ہنسی آتی ہے۔ دوسرے صاحب اسد طُور ہیں۔ جو صحافتی دُنیا میں ابھی فیڈر پیتے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں، ایک روز انہوں نے کیس رپورٹ میں انتہائی نامناسب تبصرے اور جذبات شامل کئے تھے۔ جو کسی طور پر خبر کا حصہ نہیں ہوسکتے۔ میں نے ٹویٹر پر لکھا کہ آپ نے تبصرے کرنے ہیں تو کالم لکھیں یا وی لاگ، خبر کو اس سے آزاد کریں۔ کچھ لوگ انھیں صحافی کی بجائے ’’یوٹیوبر‘‘ کہتے ہیں۔ جبکہ کچھ دوست تو یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ حامد میر ان لوگوں کو دو ہزار روپے کا ’’یوٹیوبر‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے ۔ حال ہی میں کسی صحافی کے حوالے سے اسد طور کاان کا انتباہ، بیہودہ ’’ویڈیو لاگ‘‘ تو پوری قوم دیکھ ہی چکی ہے۔ بازاری سے بھی گھٹیا زبان استعمال کرنے والے موصوف ،آج پوری اپوزیشن اور ہمارے بزنس مین صحافی لیڈرز کے ہیروز بنے ہوئے ہیں۔ آخر ان کے کریڈٹ پر ایسا کیا ہے کہ ’’حامد میر‘‘ نے بھی ان کی لاش، اپنے کاندھوں پر اٹھا لی ہے۔
احمد نورانی کی ٹویٹر پر گندی اور بازاری زبان دیکھتا ہوں۔ افسوس ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ان درباری صحافیوں کی وکالت پر ایک طوفان برپا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔نام نہاد لبرلز‘‘ کا ٹولہ لڈیاں ڈال رہا ہے۔ ان کے مخصوص حمایتی اتنی واہیات اور گندگی سے اٹی، پوسٹس کررہے ہیں کہ افسوس اور دکھ نہیں بلکہ شدید غصہ آتا ہے۔ اعزاز سید، عمر چیمے اور ان جیسے خود کو کیا سمجھتے ہیں کہ بیرونی آقائوں کے ایجنڈے اور پروپیگنڈے پر وہ اس ریاست اورعوام کو گرا لیں گے۔ ان کا بھی کیا قصور؟ جو کورسز امریکی سرکار نے کرائے ہوئے ہیں۔ وہ بھی تو حلال کرنے ہیں۔ اور ہمارے صحافی لیڈروں نے بھی تو وہ 70ملین ڈالر حلال کرنے ہیں، جو پاکستانی میڈیا کیلئے رکھے ہوئے تھے۔ جن سے یورپ میں ہوٹل چل رہے ہیں۔ ہمارے صحافی لیڈروں نے تو نیشنل پریس کلب کی فرنچائزز بھی بیچی ہیں۔
مجھے اتنہائی افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ ’’حامد میر‘‘ نے پاکستان کی صحافتی اور عوامی فضائوں میں جو زہر گُھولا ہے۔ انہوں نے صحافت اور عوام دونوں کی کوئی خدمت نہیں کی۔ سیاسی آقا ہوسکتے ہیں۔ اس سے فائدہ اٹھالیں۔ اور اگر یہ فیڈنگ ہے تووہ بھی جنہوں نے یہ سب کچھ فیڈکیا۔ انھیں اپنے اسکرپٹ میں مزید رنگ بھرنے کو مل جائیں۔ یا پھر حامد میر خود باہر سیٹل ہونے کے چکر میں ہیں تو،انھیں اس کا خاطرخواہ فائدہ ہوسکتا ہے۔اگر حامد میر نے یہیں رہنا ہے تو وہ بتائیں کہ انہیں اور صحافت کو اس سے کیا فائدہ پہنچا ہے۔ آپ صحافیوں کے حوالے سے حساس اداروں پر تو الزامات لگاتے ہیں، جو کچھ نواز شریف نے نجم سیٹھی اور میر شکیل الرحمٰن کے ساتھ کیا۔ اس پر سب کی زبانیں، حتیٰ کہ نجم سیٹھی اور میرشکیل الرحمٰن کو کیوں چپ لگ جاتی ہے۔ دونوں نے نوازشریف سے دوستی کرلی۔ انھوں نے اور صحافی لیڈروں نے خوب خوب فائدے اٹھائے۔ جو اس سیاست میں صحافی بطور ایندھن استعمال ہوئے۔ وہ تو آج بھی وہیں ہیں۔ ان کے حالات توپہلے سے بھی بدتر ہیں۔ وزارت اطلاعات اور صوبائی وزارت اطلاعات میں صحافیوں کے ساتھ جو غیر آئینی اور غیرانسانی سلوک ہوتا ہے۔ اس پر اینکروں کے گلے کیوں خشک ہوجاتے ہیں۔ جب اشتہاری مہمات کے سودے ہوتے ہیں۔ ہے کسی سیٹھ صحافی اور اینکر میں ہمت کہ بولے، یہ نورانی، چیمے، اعزاز سید، منزے جہانگیر، صرف مخصوص ایجنڈے پر ہی بول سکتے ہیں۔ پاگل، جذباتی، انقلابی نوجوان فرخ نواز بھٹی سے کہوں گا کہ وہ ذرا صحافی لیڈروں اور اطلاعات و نشریات کے اداروں کا بھی کچا چٹھا کھولے۔
کیا ان انقلابیوں میں سے کوئی بولے گا کہ صحافیوں کو حکمرانوں، بابوئوں اور غیرملکی آقائوں کے سامنےمالکان اور یہ جغادری اینکرز اور نام نہاد لبرلز کیسے بیچتے ہیں۔ یہ لوگ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کبھی کہتے ہیں میراجسم میری مرضی، آج کل کرونا کی وجہ سے کہہ رہے ہیں۔ میرا قلم، میری مرضی، ایساکیسے چل سکتا ہے۔ٹویٹر، فیس بُک اور واٹس ایپ سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر انتہائی غلیظ، قبیح، غیر اخلاقی پوسٹس کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہیں۔ یہ خود کو مہذب کہتے ہیں۔ ان کے الفاظ، ان کی زبان، ان کی تحریریں، ان کے ننگے پن کا ثبوت ہیں۔ انھیں اپنا برہنہ پن نظر نہیں آرہا۔ انہوں نے تعصب، بغض، بے ضمیری کی ایس۔ ٹی۔ سی اور’’ آئس‘‘ کھائی ہوئی ہے۔ آئین، پاکستان، عوام اور صحافت سے محبت ایک فراڈ ہے۔
تم نے جتنی لُڈیاں ڈالنی ہیں ڈال لو۔ جتنی سازشیں کرنی ہیں کرلو۔ یہ کام تو تم اور تمہارے اجداد صدیوں سے کرتے آرہے ہیں۔ تم نیا کیا کررہے ہو۔ ہم تمام تر اختلافات کے باوجود، ریاست، پاکستان، افواج پاکستان، آئی۔ ایس۔ آئی اور جنرل فیض حمید کے ساتھ کھڑے ہیں۔ تم چند درجن یا چند سو ہو۔ ہم بائیس کروڑ لوگ ہیں۔ ہمیں اپنے اداروں کی غلطیوں اور خدمات دونوں کا پتا ہے۔ ہمیں ان کو موازنہ بھی کرنا آتا ہے اور کیا بھی ہے اور کرتے رہیں گے۔ مگرریاست، عوام اور پاکستان سے غداری نہیں کریں گے۔ اس مٹی میں خاک ہوتے رہیں گے۔ اس مٹی کو فروخت نہیں کریں گے۔ نہ ہی اپنے قلم کو اور نہ ہی لفظوں کو۔ چاہے کتنی غربت، بے روزگاری، بھوک اور سختی ، اورآجائے۔۔ماں کو گالی دے کر جو دشمن سے داد لے،ایسے ’’قلم فروش‘‘ کو مرجانا چاہئے(ناصر جمال)۔۔