تحریر: ظاہرکاکڑ
دنیا میں اب اتنے زیادہ اصطلاحات/ ٹرمز ہیں کہ کسی کو کوئی بھی لفظ پسند آجائے تو ساتھ میں لفظ “اِزم” کا اضافہ کر کے استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے جس طرح لوکل یا نیشنل سطح پر بھٹو اِزم ، مولانا اِزم ، عمرانزم اور بین الاقوامی سطح پر کمیونزم ، فاشزم ، فیمنزم ، گلوبل ازم وغیرہ عام ہیں۔
لیکن ہمارے ہاں کچھ انٹر نیشنل اصطلاحات میں گلوکلائزیشن والا تڑکا موجود ہے ہر اِزم پر ہر ایک اپنی ، گروپ یا علاقائی بنیادوں پر مختلف رائے رکھتا ہے مثال کے طور پر سیکولرازم کے سوال پر ہمارے ہاں بنیادی طور پر چار پانچ قسم کی آراء زبان عام ہیں۔
اول تو وہ لوگ ہیں جو مزہبی سوچ رکھتے ہیں بشمول جمعیت علماء اسلام(اکثریت کی رائے) ، جماعت اسلامی ،تحریک لبیک وغیرہ والے جو بنیادی طور پر سیکولر ازم کے مخالف ہیں کیونکہ ان کی ڈکشنری میں سیکولر ازم ایک اسلام مخالف طرز فکر ہے اور یہ لوگ ہر سیکولر کو تقریباً مزہبی باؤنڈری سے باہر اور لادین سمجھتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو اس گروپ کی باتیں وغیرہ سن کر متاثر ہوئے ہیں جنہوں نے کبھی خود سے پڑھنے کی کوشش نہیں کی کہ آخر یہ سکیولرزم ہیں کیا؟ لیکن اس متاثرہ گروپ کے لوگ سیکولرزم کو بغیر جانے اچھا نہیں سمجھتے۔
کچھ دن پہلے کی بات ہے ہم کہی جارہے تھے گاڑی میں ایک نئی ابھرنے والی تحریک کے بارے میں بات شروع ہوئی تو ایک دوست نے کہا بھئ تحریک تو اچھی ہے لیکن تحریک پر لبرل سیکولرز کا قبضہ ہے اس وجہ سے مجھے کچھ خاص پسند نہیں ہے جب میں نے پوچھا کہ آپ کی ڈکشنری میں لبرل اور سیکولر کی کیا تعریف ہے؟ جو آپ کو پسند نہیں ہے کہنے لگا نہیں آپ بتائے آپ کی نظر میں تو لبرل سیکولرز اچھے ہیں۔ مجھے اُس کے انداز سے لگا کہ شائد سرے سے پتا ہی نہ ہو لبرل سیکولرز کا اور جب میں نے مختصراً بتایا تو آگے سے ہنسنے لگا اور کہا آرے بھئ یہ تو میں بھی لبرل سیکولر ہوں مجھے نہیں پتا تھا کہ سیکولر کا یہ مطلب ہے۔
تیسرے نمبر پر وہ لوگ ہیں جنہیں ماڈرن خیال کیا جاتا ہے ان کے نزدیک مذہب فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور کوئی شخص مذہبی رجحان رکھتے ہوئے بھی سیکولر ہو سکتا ہے جس طرح انڈیا میں الیکشن کے دوران وہاں کے علماء نے بھی سیکولرزم کا نعرہ بلند کیا تھا کہ انڈیا کو سیکولر رہنا چاہئے۔ چوتھے نمبر پر وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک سیکولر ازم کے معنی صرف اتنے ہیں کہ ریاست ریاستی معاملات میں کسی بھی مذہب کے ساتھ جانب داری نہ برتے مزہب ریاستوں کا بزنس نہیں بلکہ افراد کا ذاتی معاملہ ہے ریاست کا اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے کہ کون کس مزہب کا ماننے والا ہے اور نہ ہی یہ ہونا چاہئے کہ ریاستی سطح پر کسی مخصوص مزہب کے عبادت گاہوں کے لئے تنخواہوں کا اعلان ہو اور باقی مزاہب کے ماننے والوں کو ریاست نظر انداز کریں جو قانونی لحاظ سے اس ملک کے برابر شہری ہیں۔(ظاہرکاکڑ)۔۔