تحریر: رضا علی عابدی
پچھلے دنوں ریڈیو کا عالمی دن منایا گیا۔ جہاں کہیں اس دن کی بات ہوئی، یہی ہوئی کہ ریڈیو کے دن چلے گئے، یہ ٹیلی وژن کا زمانہ ہے۔ اوپر سے سوشل میڈیا نے ہلچل مچائی ہے اور اسمارٹ ٹیلی فون نے تو ساری دنیا اٹھا کر آپ کی ہتھیلی پر رکھ دی ہے۔ اس مجمع میں غریب ریڈیو کی سمائی کہاں ممکن۔ سچ ہے، اب تو ریڈیو کی یادیں ہی رہ گئی ہیں۔ کتنے ہی گھروں میں ریڈیو سیٹ ہی نہیں رہے۔ نئی نسل کو تو تفصیل سے بتانا پڑتا ہے کہ وہ ریڈیو کے دن کس غضب کے دن تھے، معاشرے میں سرگرم عمل رہنے والا وہ چھوٹا سا ٹرانزسٹر کیا دھوم مچاتا تھا کبھی۔ ایک وقت تو ایسا تھا کہ لوگوں کی شامیں کہنے کو لوگوں کی لیکن در حقیقت ریڈیو کی ہوا کرتی تھیں۔ ساری کی ساری یوں رخصت ہوئیں جیسے تماشا دکھا کر مداری گیا۔ کچھ دیوانے ہیں جو سال کے سال ریڈیو کا دن مناتے ہیں، کچھ تھوڑے سے احباب اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ریڈیو کو یاد کر لیتے ہیں۔ وہ لوگ بڑے یقین سے کہتے ہیں کہ ریڈیو مر نہیں سکتا۔ یہ بڑا ہی سخت جان ہے، دیکھ لینا جی اٹھے گا۔ بات یہ بھی غلط نہیں۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ وہ کیا شے تھی جس نے ریڈیو میں وہ روح پھونک رکھی تھی۔ پھر وہ قول یاد آتا ہے کہ میدان جنگ میں کمال بندوق کا نہیں، اسے تھامنے والے کا ہوتا ہے۔ کچھ یہی حال ریڈیو کا ہے۔ جب ریڈیو نیا نیا آیا تو عام لوگ سمجھتے تھے کہ اس کے اندر چھوٹے چھوٹے آدمی چھپے ہوئے ہیں۔ انہیں کیا پتہ کہ اس کے اندر بڑے بڑے لوگ ڈیرہ جمائے بیٹھے تھے، غضب کے ذہین، بلا کے ہوشیار، نہایت ہنر مند، کام کے سچّے، محنت کے پکّے۔ ان کی وہی ہنرمندی اور صلاحیت تھی جو سر شام لوگوں کو ریڈیو کے گرد کھینچ لاتی تھی۔ ریڈیو بولتا نہیں تھا، اس کے اندر زندگی بولتی تھی۔ انسان کے جذبے، احساسات، اس کی فطرت، فکر اور سوچ بولتی تھی۔ یہاں ریڈیو ہی کی ایک اصطلاح استعمال کرنے کو جی چاہتا ہے کہ جن لمحات میں ریڈیو پر بولنے والوں اور ریڈیو کو سننے والوں کے ذہن ایک ہی فریکوئنسی پر آجاتے تھے تب ریڈیو اپنے چمتکار دکھاتا تھا اور کبھی کبھی تو وجد کا وہ عالم ہوتا تھا کہ فضائیں جھومتی تھیں اور ترانے رقص کرتے تھے۔ ریڈیو پر بولنے والوں کی آوازیں گھر کا ہر فرد پہچانتا تھا، لوگ صداکاروں کی نقلیں اتارتے تھے، کوئی ان کی طرح فرضی خبریں سناتا تھا تو کوئی ان کے انداز میں گیت مالا نشر کررہا ہوتا تھا۔ بڑے بڑے نام تھے اور شہرت کی بڑی بلندیاں تھیں۔ گھر میں پردہ داری ہو یا اونچی دیواریں، ریڈیو والوں کے لئے کوئی ممانعت نہیں تھی، سب گھر میں چلے آتے تھے اور گھرانے کے فرد بن جاتے تھے۔ اب سوچتا ہوں کہ میرے ہر فقرے میں صیغہ ماضی کس کثرت سے برتا گیا ہے۔ تو کیا یہ سب ماضی کے قصے ہی بن کر رہیں گے جنہیں اہل علم قصّہ پارینہ کہتے ہیں۔ ابھی تو یاد ہیں، پھر وہاں سے بھی محو ہو جائیں گے۔ مگر دل اب بھی حوصلہ ہارنے پر آمادہ نہیں، اندر کہیں کوئی ہے جو ڈھارس بندھا ئے جاتا ہے۔ پوری مغربی دنیا میں ریڈیو زندہ ہے۔ برطانیہ میں جہاں میں آباد ہوں، ہر شہر کا اپنا ریڈیو اسٹیشن ہے۔ وہ اپنے علاقے کی خبریں سناتا ہے جو کوئی دوسرا نہیں سناتا، اپنے علاقے کا موسم بتاتا ہے، سڑکو ں پر روانی کی کیفیت بتاتا ہے، کہاں کیا ہو رہا ہے، کہاں جانا مناسب نہیں۔ یہ سب ہر کار میں لگے ریڈیو کی بدولت ہے۔ دنیا کے جن علاقوں میں لوگوں کو کار کے لمبے سفر کرنا پڑتے ہیں وہاں ان کی راہ کا رفیق یہی ریڈیو ہوتا ہے۔ ہم نے تو کھیتوں میں ٹریکٹر چلانے والے کسان کے پہلو میں رکھے چھوٹے سے ریڈیو ہی کو اس کا ہم سفر پایا ہے۔ جب سے ایف ایم کا چلن ہوا ہے، لوگوں نے اپنے چھوٹے بڑے ریڈیو اسٹیشن کھول لئے ہیں۔ ان میں کچھ معیاری ہیں اور کچھ نہیں۔ دنیا کا کوئی ملک اپنی قومی نشر گاہ سے خالی نہیں۔ قومی ائر لائن کی طرح ریڈیو ہر ملک کی پہچان ہوتا ہے۔ ہر وہ قوم اسے سنبھال کر رکھتی ہے جو آواز کے ذریعے باقی دنیا سے جڑی رہنا چاہتی ہے۔ ہر ملک اپنی قومی نشرگاہ پر ناز کرتا ہے، امریکی صدر ہر ہفتے ریڈیو پر قوم سے خطاب کیا کرتا تھا، آل انڈیا ریڈیو کو انگریز دلّی میں جو شاندار عمارت دے گئے ہیں وہ نشر گاہ کی نہیں، پورے ملک کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
مگر ہائے، اس موقع پر ایک تیر سا سینے پر لگتا ہے۔ ہم نے کسی زمانے میں اپنے مرحوم دارالحکومت کراچی کی محمد علی جناح روڈ پر کیسی نگینے کی طرح جڑی ہوئی عمارت میں ریڈیو پاکستان قائم کیا تھا، وہ بُرج، وہ گنبد، وہ دریچے، وہ راہ داریاں، وہ جالی دار روشن دان اور وہ قرینے سے ترشے ہوئے ستون۔ اس کی پیشانی پر ریڈیو پاکستان کا علامتی نشان۔ کیا جاہ و جلال تھا اور کیا طنطنہ تھا اس عالی شان عمارت کا، ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے۔
ہوا وہ جو کتنی ہی تاریخی عمارتوں میں ہوتا ہے، اس میں آگ لگ گئی اور عمارت کے ایک حصے کو نقصان پہنچا۔ قومیں راتوں رات اسے دوبارہ اجلا کردیتی ہیں، لیکن ہم اسے چھوڑ کر نکل گئے، پھر وہی ہوا جو خالی عمارتوں میں ہوتا ہے۔ اس میں سیکورٹی اہلکاروں کا بسیرا ہو گیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اسی جگہ سے محرم کے جلوس کو گزرنا تھا، رینجرز نے جلوس کی سیکورٹی کے نام پر ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت میں کچھ روز پڑاؤ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ بس پھر وہ پڑاؤ طول کھینچتا گیا۔ یہ قصہ سنہ دو ہزار پندرہ کا ہے۔ ہماری وہ عمارت ہماری نہیں رہی۔ ہماری وہ یادگار، ہماری وہ عظمت، وہ نشانی اور وہ علامت جیسے چھن گئی ہو۔ آج جب ریڈیو کا عالمی دن منایا جا چکا ہے، میری یہ درخواست، التجایا اپیل نہیں، میرا یہ مطالبہ ہے اور وہ بھی پوری قوت سے ہمارا یہ سرمایہ ہمیں واپس کیا جائے۔ اِسی عمارت میں ،اُسی دھج سے ہماری ملّی نشرگاہ بحال کی جائے۔ یہاں پاکستان کی براڈ کاسٹنگ کا ایک ایسا یادگار میوزیم قائم کیا جائے کہ دنیا اسے دیکھا ہی کرے۔ لوگ آئیں، اسکولوں کے بچّے آئیں، مسافر اور راہ گیر آئیں اور دیکھیں کہ جس عمارت سے قائد اعظم نے ملّت سے خطاب کیا تھا اس عمارت میں تاریخ کا دل آج بھی دھڑک رہا ہے، اس کے سینے پر سر رکھ کر دیکھ لیجئے۔(بشکریہ جنگ)