Asad Mehmood

ہمارا نظام تعلیم تاریخ اور تجدید

تحریر: اسدمحمود

اسلام کا سب سے پہلا مدرسہ مسجد نبوی بنا, جہاں اصحاب مدرسہ کے اہم فضلاء میں سمجھے جاتے تھے۔۔  مسجد نبوی وہ دینی مدرسہ تھا ،جہاں کئی عظیم ہستیاں پیدا ہوئیں اور یہاں سے ہی اس سنت کا آغاز ہوا کہ مساجد اور عبادت گاہوں سے تعلیم و تربیت کا کام لیا جائے اور اس سنت کا بعد کے دور میں بھی سلسلہ چلتا رہا. مسجدیں درس,  توحید,  تفسیر قرآن,  احادیث کے اجراء اور فقہوں کے نفاذ کا مرکز بنیں۔۔دور نبوی میں جہاں دینی تعلیم کو لازم قرار دیا گیا وہاں دنیاوی تعلیم کو بھی اہمیت دی گئی اور آپ (ص)  نے دینی تعلیمی کے ساتھ دنیاوی تعلیم پر بھی زور دیا، ہم اکثر جنگ بدر کے قیدیوں کا حوالہ تو یاد رکھتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ دور نبوی (ص)  میں جب ان قیدیوں کی رہائی پر بات ہوئی تو انہیں صحابہ کرام کو تعلیم دینے کی شرط پر رہائی دینے کے احکامات جاری کیے گئے یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا غیر مسلم قیدی اسلامی تعلیمات سے واقف تھے اگر نہیں تو پھر انہیں مسلمانوں کو تعلیم دینے کا کیوں کہا گیا دراصل نبی (ص)  کے دور میں بھی دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم پر زور دیا گیا تھا. 

تعلیمی کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے لگالیں کہ پہلی وحی یہی نازل ہوئی کہ ” پڑھو اے نبی اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے تمہیں پیدا کیا” اور ایک احادیثِ مبارکہ ہے کہ ” علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی جانا پڑے” اسلامی تعلیمات ہی کی بدولت آقا دوجہاں نے عربوں کی زندگیاں بدل دیں۔ اسلام کے ظہور میں آنے سے لیکر 1500ء تک ہم نے ہزار سے زائد سائنسدان پیدا کئے مگر اس کے بعد ہم چند گنتی کے سائنسدان ہی پیدا کر سکے اس کی بنیادی وجہ کیا ہے ؟؟  آخر کیوں یہ سلسلہ مانند پڑنے لگا ؟؟ دراصل یورپ کی ترقی دیکھ کر ہمارے حوصلے پست پڑنے لگے اور جس رفتار سے اسلامی ظہور کے بعد معاشرہ ترقی کی رفتار میں سب کو پیچھے چھوڑ رہا تھا اس کی رفتار اب مانند پڑنے لگی تھی اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ جب سے مدارس نے علم دنیوی میں حقائق و ایجادات کو کشف کرنا چھوڑ دیا اور دوسروں کی ترقی دیکھ کر محو ہونے لگے اس دور سے حالات نے پلٹا کھانا شروع کر دیا. یورپ کی ترقی  مسلمانوں کے عروج اور ان کی بڑھتی ہوئی پیشرفت کا رد عمل تھا مسلمانوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی ترقی فتوحات اور انکشافات نے اہل یورپ کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اگر وہ ایک باعزم ہو کر تجدید و پیشرفت سے کام نہیں کرینگے تو مسلمان ان پر حاوی رہیں گے اور اسلام دنیا کے ہر کونے میں اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ دیگا۔۔یورپ کے اس بدلتے ہوئے رویے کے پیش نظر جہاں مسلمانوں کو اپنی کوششوں میں مزید نکھار لانا چاہیے تھا وہاں وہ یورپین کی تخلیقات پر نظر جمائے ہوئے محو ہونے لگے اور یوں ان کی عدم توجہی نے انہیں منحرف کردیا. مسلمان اپنے اداروں میں نت نئی تحقیقات کو چھوڑ کر سابقہ ایجادات اور تحقیقات پر اکتفا کرنے لگے جس سے نئی تحقیقات کا سلسلہ بند ہو گیا نئے مفکرین و ماہرین پیدا ہونے بند ہو گئے اور جس کی بدولت انکشافات کا سلسلہ بھی اختتام کو پہنچا… 

امت مسلمہ جو کل تک پوری دنیا پر حاوی نظر آتی تھی بعد میں خود رہبریت کی محتاج نظر آنے لگی جو کل تک  سمت کا تعین کرتی تھی آج ان کی سمت پر چلنے لگی اور مغرب نے پانچ سو سال بعد بھی اپنی تعمیر و تخلیق کا سلسلہ بند نہیں کیا.

اسلام کے نام پر معرض وجود آنے والے اس مملکت خداداد کو آج 71 برس کا عرصہ بیت چکا ہے مگر ہمارا تعلیمی نظام جوں کا توں ہے ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے بہت سے ممالک اپنے تعلیمی نظام میں ہم سے بہت آگے نکل گئے ہیں ہیومن ڈویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان شرح خواندگی کے لحاظ سے دنیا کا 125 واں ملک ہے پاکستان میں % 55 فیصد لوگ پڑھنا لکھنا جانتے ہیں جنہیں ہم خواندہ کہتے ہیں ایک اور ادارے یونیسف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 67 لاکھ بچے سکول جانے کی عمر میں سکول جانے سے قاصر ہیں اور قریب %59 فیصد بچے ایسے ہیں جو سکول جانے کے کچھ عرصہ بعد مختلف وجوہات کی بناء پر سکول چھوڑ دیتے ہیں.  یو این کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پرائمری سطح کی تعلیم میں دنیا سے پچاس سال اور سیکنڈری کی سطح پر ساٹھ سال سے زائد پیچھے ہے. یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نصف صدی سے زائد گزر جانے کے بعد بھی ہم اتنے پیچھے کیوں ہیں ؟؟ ہمارے نظام تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے یا پھر اس سسٹم کی خرابی کی سمت کا تعین کیوں نہیں کیا جا رہا..؟؟

ہم اپنے نظام تعلیم کی تباہی کی وجوہات کو تلاش کیوں نہیں کرتے…  ساتھ ہی جب ہم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی ملک تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا تو پھر ہمارا تعلیمی بجٹ اتنا محدود کیوں ہے؟؟

 یہی سوال جب ہم عوام اپنے نمائندوں سے کرتے ہیں تو وہ ہماری رائے طلب کرنے کے بجائے زبانی کلامی اپنے منصوبے گنوا دیتے ہیں. حالانکہ انہیں چاہیے کہ سسٹم میں خرابی کا تعین کریں ان کو دیکھنا چاہیے کہ دراصل غیر متوازن تعلیم ہی ہمارے تعلیمی نظام کو اس نہج پر لانے کا سب سے بڑا سبب ہے ہمارا نصاب ہو یا تعلیمی ڈھانچہ سب غیر متوازن ہے. ہماری ریاست ہمیشہ ملک کی عوام کو ایک جیسی تعلیم اور ایک جیسے مواقع فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے اور ہمارے پرائیویٹ ادارے تعلیم جیسے مقدس پیشے میں بھی مافیاء کا کردار ادا کر رہے ہیں.  من چاہے تعلیمی نصاب اور من چاہے تعلیمی اخراجات عوام مسلط کر کے عوام پر اذیتوں کے تودے گرا رہے ہیں

بدقسمتی سے ہمارے ملک کا شمار ایسے ملکوں کی فہرست میں نمایاں ہے جہاں تعلیم جیسے عظیم پیشے کو ایک کاروبار بنا دیا گیا تعلیم کے سوداگر عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کے ساتھ طلباء کے مستقبل کے ساتھ بھی کھلواڑ کر رہے ہیں.  پاکستان میں لاتعداد نجی ادارے طلباء کو میرٹ کا جھانسہ دیکر بعد میں کوچنگ و دیگر کلاسز کے نام پر بھاری بھرکم فیسوں کا مطالبہ کر دیتے ہیں والدین یہ سوچ کر اپنے بچوں کا داخلہ بخوشی کرادیتے ہیں

کہ ان کا نام میرٹ لسٹ میں آیا ہے اور اب ان کو کوئی اضافی فیس ادا نہیں کرنی پڑیگی مگر زیادہ تر نجی ادارے طلباء کو شروعات میں رعائتی پیکج کی آفر کرا کے ان کے ایڈمیشنز کے دن ضائع کروادیتے ہیں پھر بعد میں ان سے کوچنگ و دیگر ٹیسٹ کے نام پر فیسوں کی ایک طویل لسٹ ان کو تھما دیتے ہیں.  اداروں کی اس بلیک میلنگ سے جہاں طلباء کے والدین پر بجلیاں گرتی ہیں وہاں ان کے بچے بھی اپنا مستقبل ڈوبتا دیکھ کر ذہنی اذیت کا شکار ہو کر یا تو تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگتے یا پھر اپنی زندگیوں کے چراغ بجھا کر منو مٹی تلے سو جاتے ہیں.. اور پھر یہی ادارے ہر نئے سال کے آغاز پر ایک نیا جال بُن لیتے ہیں..

کئی عشروں سے براجمان اس نظام کو ٹھیک کرنے کے دعویدار اگر یہ سمجھتے ہیں کہ یکساں اور متوازن تعلیم ریاست کی ذمہ داری نہیں ہے تو عوام چندہ جمع کر کے ان حکمرانوں کو فن لینڈ کا ایک مطالعاتی دورہ کروائے جہاں تمام تعلیمی ادارے حکومت کے زیر سایہ متوازن تعلیم فراہم کر رہے ہیں اور طالب علموں کو کتابی کیڑا بنانے کی بجائے انکو پریکٹیکل ہُنر سکھایا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ فن لینڈ دنیا میں تعلیمی نظام کے حوالے سے ایک رول ماڈل تصور کیا جاتا ہے ۔۔نیوزی لینڈ میں % 85 فیصد طلباء کو سرکاری اسکول تعلیم دیتے ہیں 12 فیصد نجی ادارے ایسے ہیں جو سرکاری تحویل میں کام کر رہے ہیں باقی 3 فیصد نجی ادارے ہیں ۔۔ویسٹ انڈیز کے ملک بارباڈوس کی طرف نظر دوڑائیں تو ان کی تعلیمی شعبہ میں بے پناہ سرمایہ کاری کی بدولت ان کی شرح خواندگی 98 فیصد ہے اس حساب سے یہ ملک دنیا کا سب سے زیادہ خواندگی رکھنے والا ملک شمار ہوتا ہے استونیا اپنے جی ڈی پی کا 4 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے.. اگر ہماری حکومت یہ سمجھتی ہے کہ تعلیمی بجٹ یا نجی اداروں کی معاونت کی ضرورت نہیں ہے تو آئرلینڈ کی طرف دیکھ لیں جو اپنے تعلیمی نظام کے حوالے سے دنیا میں ایک مقام رکھتا ہے 2008ء سے 2013ء کے مالی بحران کی بدولت  آئرلینڈ نے اپنے 15 فیصد تعلیمی اخراجات کم کیے تو ماہرین ان کے تعلیمی نظام کو ناقابل تلافی نقصان کی پیشن گوئیاں کرنے لگے۔۔سوئزرلینڈ میں صرف 5 فیصد نجی اسکولز ہیں اور آج تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے یہ ملک اپنی مثال آپ ہے…

نئے پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر چلانے کے لیے سب سے اہم کام آپ کا تعلیمی نظام ہے جب تک یہاں یکساں اور متوازن تعلیم کا فروغ ہنگامی بنیادوں پر عمل میں نہیں لایا جائے گا تب تک عوام کو دین اسلام کے فرائض تک رسائی نہ ہو پائے گی اور اگلے71 سال بعد بھی ہمارا نظام تعلیم جوں کا توں ہی رہنا ہے اس لیے حکومت وقت کا یہ فرض ہے کہ تعلیمی بجٹ میں اضافہ کر کے اپنی عوام کو ایک متوازن تعلیم فراہم کرے ورنہ اس ملک کی ترقی کے دعوے محض ایک دیوانے کا خواب ہی رہ جائیں گے..(اسدمحمود)

How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں