halla gulla ke bagher ramzan transmission

ہلہ گلہ کے بغیر رمضان ٹرانسمیشن۔۔

تحریر: بشیر چودھری۔۔

رمضان کا چاند نظر آتے ہی اردگرد ماحول کے علاوہ میڈیا پر بھی کچھ تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی رہی ہیں، جہاں مساجد میں حاضری بڑھ جاتی، وہیں ٹی وی اور ریڈیو پر مذہبی پروگرام شروع ہو جاتے ہیں۔

بچپن سے جاری اس سلسلے میں اب تک اردگرد کا ماحول تو ویسا ہی ہے لیکن میڈیا پر بہت کچھ بدل گیا ہے، مختلف چینلز پر چڑھنے والی رمضان ٹرانسمیشن کی ہنڈیاں کم و بیش ایک سی ہی ہوتی ہیں۔ فیشن کے مصالحوں کی مدد سے گلیمر کے تڑکے تو اس کے نمایاں اجزا ہیں ہی تاہم غیر نمایاں اجزا کمرشل ازم اور ریٹنگ ہے۔

جھلملاتے سیٹوں پر زرق برق ملبوسات پہنے خواتین و حضرات اور پروگراموں کا سکرپٹ تو اپنی جگہ مگر کچھ مناظر ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں میزبان بھاگتے ہوئے لوگوں کی طرف انعام اچھال رہے ہوتے ہیں، کبھی آم کھانے کا مقابلہ ہوتا ہے تو کبھی میوزیکل چیئر کا۔

لطف کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کو ہدف تنقید بنانے والے بھی کم نہیں جبکہ ایسے پروگراموں میں شرکت کے لیے تگ و دو کرنے والے بھی بہت ہیں۔

ایسے پروگراموں کی میزبانی اداکار، اداکارائیں اور اینکرز کرتے ہیں۔ نشریات کے دوران سپانسرڈ سیگمنٹ کیے جاتے ہیں جس کے لیے سٹوڈیوز میں حاضرین کو بلایا جاتا ہے۔

سما ٹی وی پر رمضان نشریات کی میزبانی کرنے والے سید بلال قطب کے مطابق ’ان حاظرین کو شو پر لانے کے لیے پیسے دیے جاتے تھے۔‘

جیو نیوز پر رمضان نشریات کی میزبان اور معروف نیوز اینکر رابعہ انعم کہتی ہیں کہ ’حاضرین کو سٹوڈیو تک پہنچنے کے لیے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا تھا۔ دو بجے شروع ہونے والی نشریات کے لیے میزبان کو 12 بجے دفتر پہنچنا ہوتا تھا جبکہ حاضرین صبح 10 بجے سے قطار میں لگے ہوتے تھے۔ کراچی میں گذشتہ دو سال رمضان میں ہیٹ ویو کے باوجود لوگ پورا دن گرمی برداشت کرتے اور ان نشریات کا حصہ بنتے۔

کورونا وائرس کے باعث پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے رمضان نشریات کے حوالے سے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں۔ جن کے مطابق نہ صرف حاضرین کے سٹوڈیو میں آنے پر پابندی ہوگی بلکہ مہمانوں کی موجودگی بھی محدود کر دی گئی ہے۔ جس سے رمضان نشریات سے وابستہ افراد کی ساری منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ گئی ہے۔

پاکستان ٹیلی ویژن اور ہم ٹی وی کی مشترکہ رمضان نشریات کے ہیڈ پروڈیوسر خاور خان کے مطابق کم و بیش تمام ٹی وی چینلز رمضان نشریات آؤٹ سورس کرتے تھے۔ کورونا وائرس کے باعث اس دفعہ نشریات آؤٹ سورس کرنے کے بجائے چینلز خود سے نشریات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس وجہ سے پروڈکشن کے شعبے سے وابستہ سینکڑوں افراد کو رمضان میں ملنے والا روزگار نہیں مل سکے گا۔ ہر شو سے 40 سے 50 اضافی افراد کو روزگار ملنا تھا جو مجموعی طور پر ہزاروں میں ہوتے’

رابعہ انعم کرنٹ افیئرز پروگرام کی میزبانی چھوڑ کر رمضان نشریات کی طرف آئیں۔ ان کے پروگرام کو مقبولیت بھی ملی لیکن اس دفعہ وہ رمضان نشریات نہیں کر رہیں تاہم وہ پیمرا کی حمایت کرتی ہیں۔

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’حاضرین کا سٹوڈیو میں نہ لانے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں تھا کیونکہ لوگ بڑی رمضان نشریات کا حصہ بننے کے لیے لائنوں میں لگ کر بچوں اور بزرگوں کے ساتھ آتے ہیں اور کئی چینلز پر بدانتظامی بھی ہو جاتی ہے۔ لوگوں کو ٹی وی پر آنے اور انعامات جیتنے کا شوق ہوتا ہے اس لیے ضروری تھا کہ موجودہ حالات میں حاضرین کو سٹوڈیو سے دور رکھا جاتا۔

اداکار اور میزبان فہد مصطفیٰ جو اے آر وائے ڈیجیٹل پر رمضان میں نشریات کے علاوہ گیم شو بھی کرتے ہیں ان کے شو کے دوران سینکڑوں لوگ سیٹ پر موجود ہوتے ہیں اور ہر طرح کا ہلہ گلہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس دفعہ شو تو کر رہے ہیں لیکن اس میں عوام نہیں ہوں گے کیونکہ وہ اپنی ٹیم اور باقی لوگوں کی جانوں کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔ پروگرام کا نیا فارمیٹ کیا ہوگا اس کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔

اے ٹی وی پر طویل عرصے تک مارننگ شو کی میزبان فرح سعدیہ ان دنوں پبلک ٹی وی پر رمضان نشریات کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں کہتی ہیں کہ ’یہ فیصلہ بہت پہلے ہوجانا چاہئیے تھا رمضان نشریات کا مقصد سٹوڈیو میں بیٹھے افراد کو مخاطب کرنا نہیں بلکہ بڑی تعداد میں ناظرین تک پیغام پہنچانا ہوتا ہے۔ رمضان نشریات کے نام پر گیم شو نشر کرنے کی وجہ سے حاضرین کو بلایا جاتا تھا اس وجہ سے نشریات کی اصل روح متاثر ہوتی تھی اس کے لیے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی کرتے رہے کیونکہ یہ پبلک ڈیمانڈ بھی تھی۔‘

سید بلال قطب کا موقف تو ذرا ہٹ کے ہے، وہ کہتے ہیں ’اچھا ہے کہ ناظرین کو نہیں بلانا پڑے گا اور ان کو پیسے بھی نہیں دینے پڑیں گے۔‘

اس صورتحال میں رمضان نشریات کیسی ہوگی؟ ریٹنگ پر کیا اثر پڑے گا؟ اور چینلز کی توقع کے مطابق اشتہارات اور سپانسرز مل سکیں گے یا نہیں؟

جیو نیوز سے وابستہ پروڈیوسر محمد ظفران کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ وقت کی ضرورت ہے لیکن اس سے ریٹنگ پر تو فرق پڑے گا۔ رمضان نشریات کا فارمیٹ تبدیل ہونے سے اداروں کی کمزور مالی حیثیت میں بہتری آنے کے امکانات بھی محدود ہوگئے ہیں۔

ان کے مطابق اداروں نے کورونا کے پیش نظر رمضان نشریات کے لیے سیٹ وغیرہ بنانے کے حوالے سے منصوبہ بندی روک دی تھی اس لیے اس مد میں تو انہیں کوئی نقصان نہیں ہوا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ کئی سیگمنٹ نہیں ہوں گے اور نشریات کا دورانیہ کم کرنا پڑے گا اور ان سیگمنٹس کے سپانسرز بھی دستیاب نہیں ہوسکیں گے۔

ان کا کہنا ہے ‘سکرین پر روزہ کشائی کرتے بچے اور انعامات جیتنے کے لیے تگ و دو کرتی خواتین کے مقابلے بھی نہیں ہوں گے۔ کسی لاچار و ضرورت مند کی مدد کے لیے پیسے اکٹھے کرنے کی مہم بھی نہیں چلے گی۔  ایسی صورت حال میں عوامی دلچسپی برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ جس کا اثر ریٹنگ پر بھی پڑے گا۔‘

اس حوالے سے رابعہ انعم کہتی ہیں کہ ’حاضرین کی موجودگی سے نشریات بڑی ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ جب بھی آپ کوئی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے وہاں موجود لوگوں کا ردعمل آپ کو معلوم ہوتا ہے۔ کوئی نعت پڑھتا ہے تو لوگ اس میں کھو جاتے ہیں، لوگوں کے آنسو نکل پڑتے ہیں یہ سب چیزیں کیمرہ دکھاتا ہے اور گھر بیٹھے لوگوں کے لیے یہ دلچسپی کی چیزیں ہوتی ہیں۔ اب یہ سب کچھ نہیں ہوگا۔

رابعہ انعم کے مطابق صرف حاضرین کو بلانے پر ہی پابندی نہیں بلکہ جو مختلف سیگمنٹس اور کوئز پروگرام کیے جاتے تھے ان کے شرکا کو سیٹ پر لانے کے لیے پابندی ہے۔ ہمارے چینل کے پاس اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ان لوگوں کو ٹی وی پر دکھانا تقریباً ناممکن ہے۔ یعنی آپ سیٹ پر رونق نہیں دکھا سکتے نہ ہی بڑا سیٹ ہوگا۔ ایک وقت میں ایک میزبان اور ایک مہمان ہی سیٹ پر موجود ہوگا۔ نتیجتاً یہی محسوس ہوتا ہے کہ اب کی بار نشریات مختصر ہوگی۔ جب نشریات مختصر ہوگی تو پھر کمپنیاں اور برینڈز پیسہ بھی نہیں لگائیں گی جس سے نقصان تو چینلز کو ہی اٹھانا ہوگا۔

میزبان فرح سعدیہ اس سے مختلف سوچتی ہیں۔ ان کے مطابق نشریات کے لیے مواد کی کمی نہیں ہوتی۔ خواتین کی دلچسپی کے لیے کوکنگ اور بچوں کے لیے نعتیں وغیرہ الگ سے ریکارڈ کرکے نشریات کا حصہ بنائی جا سکتی ہیں۔ مواد کی کمی کبھی بھی نہیں ہوتی، اگر آپ کا سارا فوکس ہی گھی کا ڈبہ بانٹنے اور انعامات کے لالچ میں الجھانے پر ہو تو پھر مواد کی ضرورت نہیں رہتی اب تو میرے خیال میں بہتر ہو جائے گا۔

سید بلال قطب کہتے ہیں ان کا سیٹ بھی وہی ہوگا اور علمائے کرام بھی وہی ہوں گے جو پہلے ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے افطاری سیٹ پر ہوتی تھی اب سب اپنے اپنے گھر پر کیا کریں گے۔‘

رمضان نشریات کے میزبان ہوں یا پروڈیوسرز وہ پیمرا کی ہدایات کی مخالفت تو نہیں کر رہے تاہم وہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ اس سے نشریات میں نہ وہ رنگ ہوگا اور نہ ہو جوش و خروش دیکھنے کو ملے گا۔ چینلز کی آمدن میں بھی کمی ضرور آئے گی۔تاہم خاور خان یہ سمجھتے ہیں اشتہارات میں تو کمی نہیں آئے گی اس لیے چینلز کو اتنا نقصان نہیں ہوگا البتہ ورکرز ضرور خسارے میں رہیں گے۔(بشکریہ اردونیوز)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں