تحریر: عادل علی۔۔
نگراں حکومتی سیٹ اپ کے نافذ العمل ہوتے ہی ایک سیاسی جماعت کے سینیئر لیڈران کی گرفتاریوں کا عمل شدت اختیار کر گیا ہے ساتھ ہی ہر صوبے میں اہم انتظامی عہدوں پر تقرریوں و تبادلوں کی اکھاڑ پچھاڑ بھی جاری ہے۔
صوبہ سندھ میں قریب قریب غیر جانبدار نگراں وزیر اعلیٰ کی تقرری کا گماں تھا یا پھر یوں کہیں کہ جسٹس مقبول کو پیپلزپارٹی کی چوائس تصور کیا جا رہا تھا اس لیے الیکشن میں کسی بھی قسم کے فیورٹزم کے عنصر کو رد کرنے کے لیے سندھ میں چیف سیکریٹری سمیت آئی جی سندھ کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے اور کم و بیش یہ ہی صورتحال ملک بھر میں ہے۔
منظور پشتین کی جانب سے حالیہ جلسے میں استعمال کی جانے والی زبان اور اس کے دوران شیریں مزاری صاحبہ کی صاحبزادی ایمان مزاری کا براہ راست جی ایچ کیو میں بیٹھے جنرلز کو دہشت گرد قرار دینے سمیت دہشتگردی کے پیچھے وردی کے نعرے لگوانا کسی نئے کھیل کی شروعات معلوم ہوتا ہے۔
حسب روایت چھوٹے میاں گارڈ آف آنر لینے کے بعد لندن لینڈ کر چکے ہیں۔ الیکشن میں التوا اب واضح نظر آرہا ہے۔ نہ صرف حقلہ بندیوں بلکہ اس کے بعد بھی الیکشن ہوتا نظر نہیں آرہا جبکہ غالب امکان بھی یہ ہی تھا کیونکہ بین الاقوامی ادارے جن کی مدد سے ہمارے ملک کی معیشت میں ٹھہراوٗ آنے کا امکان ہے انہیں اپنی سرمایہ کاری کے بدلے ٹھوس اور مستحکم ریکوری پلان بھی درکار ہوگا اور میر اب اتنے بھی سادہ نہیں کہ اتنا بھی نہ سمجھ سکیں کہ مملکت خدادا میں ٹھراوؑ تو ہمیشہ سر والوں کے دور میں ہی آتا ہے۔
سرمایہ کاروں کو پانچ سے دس سالہ دورانیے پر محیط ریکوری پلان چاہیے ہوگا اور وہ تب ہی ممکن ہوگا جب ملک کی باگ دوڑ کسی ایک اور وہ بھی مضبوط ہاتھ میں ہو اور یہ ہم سب ہی جانتے ہیں کہ وہ ایک اور مضبوط ہاتھ کن کا ہوسکتا ہے۔اٹھاروین ترمیم کے تحت اقتدار پر باوردی براجمان ہونا تو ممکن رہا نہیں اس لیے کٹھ پتلی ٹیکنوکریٹ سرکار کو سامنے رکھ کر پیچھے سے ڈوریں ہلائی جاسکتی ہیں جو کہ ہوتا ہوا دکھائی بھی دے رہا ہے۔
سینیئر سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ نگراں وزیر اعظم کے لیے کاکڑ صاحب کے نام کا تذکرہ بھی نہ تھا مگر وہ وزیر اعظم بن چکے ہیں۔
صوبوں کی انتظامی مشینری میں بھاری پیمانے پر رد و بدل کی جارہی ہے۔
بڑے میاں صاحب کی وطن واپسی کا پلان ہر بار کی طرح اس بار بھی موخر ہوچکا ہے اور کسی نئی تاریخ کا اعلان بھی نہیں کیا گیا۔
نگراں وزیر اعظم کی تقرری پر اپنا اختیار شہباز شریف کو سونپنے کا دعویٰ کرنے والی پیپلزپارٹی اس وقت الیکشن میں التوا کی بھرپور مخالفت کر رہی ہے الغرض کہ حالات حاضرہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اس خوف نے ستانا شروع کر دیا ہے کہ کہیں ہمارے ساتھ ہر بار کی طرح اس بار بھی ہاتھ تو نہیں ہوگیا!
سیاست سے ہٹ کر ملک کے زمینی حقائق کی بات کریں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں فسطائیت اور انارکی پھیلا کر ایک بار پھر عوام کی توجہ کہیں اور مبذول کروانا مقصود ہے۔
ٹارگٹ کلنگ کا سانپ ایک بار پھر اپنا پھن پھیلا رہا ہے۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب ہو رہی ہے جبکہ مہنگائی کے عذاب نے اپر مڈل کلاس طبقے کو بھی رگیدنا شروع کر دیا ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امیر مزید امیر ہو رہا ہے اور غربت کا دائرہ کار امیری کی لکیر کے نیچے سروائیو کرنے والے ہر طبقے کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔
2018 میں ملک پر تباہی نافذ کرنے والے تمام سابقہ لاڈلے اب ایک دوسرے سے جیل و عدالتوں میں پیشیوں کے وقت ملتے ہیں اور دل ہی دل میں ایک دوسرے کو شاید بددعائیں بھی دیتے ہیں مگر بیلوں کی لڑائی میں پسنے والی عوام کے جسم کے چند جوڑ ہی سلامت بچے ہیں۔۔
گر یہ سب اسی طرح جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان صرف امیروں کی راجدھانی بن چکا ہوگا اور غریب قبرستان کی رونق میں اضافہ کر رہا ہوگا مگر وہ بھی تب جب مرحوم کے لواحقین کے پاس قبر کی زمین خریدنے و دفن کے اخراجات سہنے کی سکت ہوئی تو۔۔(عادل علی)۔۔
حالات حاضرہ۔۔
Facebook Comments