تحریر: آغا خالد۔۔
ہمدرد یونیورسٹی کے 26 ویں کانووکیشن کے موقع پر کراچی کے سینیر صحافیوں کو یونیورسٹی کے مختلف کیمپس کا دورہ کروایا گیا اس موقع پر انہیں حکیم سعید شہید کے مرقد پر بھی لیجایا گیا جہاں استاذ الاساتذہ بابائے صحافت محمود شام کی قیادت میں فاتحہ پڑھی تو آنکھیں نم ہوگئیں اور حکیم صاحب کے بے رحمانہ قتل اور ایم اے جناح روڈ اور آرام باغ کے سنگم پر ان کے مطب کے لان پر ان کی گولیوں سے چھلنی لاش کا منظر برسوں بعد پھر ایک بار ذہن میں تازہ ہوگیا اس عظیم طبیب اور انسان دوست علمی وادبی شخصیت کو بڑی بے رحمی سے اس وقت قتل کردیاگیا تھا جب وہ تہجد کی نماز پڑھ کر گھر سے نکلتے اور اپنے مطب پر ملک بھر کے دور دراز علاقوں سے آئے لوگوں کو شفاء بانٹتے اس روز بھی وہ اپنی گاڑی سے نکل کر مطب میں داخل ہورہے تھے کہ ایک ہائی روف میں سوار آدھ درجن قاتلوں کے ایک گروہ نے بھاری ہتھیاروں سے گولیوں کی بوچھاڑ کردی جس سے وہ موقع پرہی شہید ہوگئے میں ان دنوں امت اخبار سے وابستہ اور کرائم ڈیسک کاانچارج تھا اخبار کی کاپی پریس بھیج کر نیوچالی پر ناشتہ کرہے تھے کہ اس جانکاہ واقعہ کی اطلاع ملی جائے وقوعہ فرلانگ بھر دور تھا اس لئے پولیس یا ایمبولینس سے بھی پہلے پہنچ گئے وہ دلخراش منظر ہنوز رلادیتاہے جب اس صدی کا “حکیم لقمان” خون میں لت پت اپنے ہی مطب کی ڈیوڑھی پر بے سدھ پڑاتھا ان کا آدھا جسم سڑک پر اور آدھا سیڑھیوں پر تھا اسی لمحے ایس پی جنوبی قاضی رشید پولیس کی موبائل میں سائرن بجاتے پہنچے اور پھر ایدھی ایمبولنس بھی پہنچ گئی وہ لمحات… اور سامنے قبر پر ان کا کتبہ میرے اعصاب کو شکستہ کرہے تھے، حکیم سعید کے قتل پر مینے ذاتی طورپر تحقیق کی تھی ان کے قتل کے الزام میں کراچی پولیس نے 3 مختلف گروپس کو 2 ماہ کے اندرگرفتار کیاتھا اور تینوں سے پولیس کی تفتیش میں خود میں بھی شریک رہا اور ان کے اعتراف جرم کا گواہ بھی ہوں مگر بعد میں اندازہ ہواکہ ایس ایس پی وسطی فاروق امین قریشی کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے پہلے گروہ کے ابتدائی ملزم عامراللہ نے قتل کا اعتراف نہیں قاتلوں کی نشاندہی کی تھی کیونکہ حکیم سعید کے قتل کے براہ راست احکامات لندن سے مہاجروں سمیت دیگر متعدد قومیتوں کے خونخوار قاتل نے دیئے تھے اور اس کے پیچھے بین الاقوامی مافیاتھی جو اسے لندن میں انہی مقاصد کے لئے پال رہے تھے ان کے ایما پر حکیم صاحب کو موت کے گھاٹ اتارا گیا کیونکہ حکیم سعید بڑی بےباکی سے مملکت خداداد کے خلاف بین الاقوامی سازشوں کو طشت ازبام کرہے تھے انہوں نے اپنی زندگی میں عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کی یہودی سازش کا بھی بھانڈہ پھوڑا تھا پھر وہ کوکا کولا کے مقابل ایک “مسلم کولڈ ڈرنک” بھی لانا چاہ رہے تھے جبکہ امریکہ سمیت پورے یورپ کی عیاشی اسلحہ اور دوائیوں کی صنعت پر چل رہی ہے اور حکیم صاحب اس میں بھی ڈینٹ ڈالنے پر بضد تھے اور “مدینۃ الحکمت” کے نام سے کراچی کے ماتھے پر ایک اسلامی علم وفضل کانیا شہر بسانے جارہے تھے پھر وہ دیسی طریقہ علاج اور طب نبوی کو بین الاقوامی معیار پر لانے کی مسلسل سعی فرمارہے تھے جوشخص خدا اور اس کے رسول کی محبت میں اس قدر گرفتارہو کہ وہ ساڑھے 3 سو ایکڑ رقبے پر ایک نیا شہراپنے پیارے نبی کے شہر سے موسوم “مدینۃ الحکمت” کے نام سے بسانے چلاہو بات کا دھنی ہو مذہبی خیالات رکھتاہو اسے بین الاقوامی مافیا کیونکر یہ سب کرنے کاموقع دے گی پھر ایک ظالمانہ ذہن کانفسیاتی مجرم ہرمنفی کام پر امادہ ہو اوراس کا استعمال ان کی دسترس میں ہو پھر وہ حکیم سعید سے ذاتی عناد بھی رکھتاہو تو قتل بہت آسان ہوجاتاہے کہاجاتاہے کہ حکومت سے حکیم سعید نے فیڈرل کیپٹل ایریا سے متصل بکراپیڑی کے نام سے مشہور لیاقت آباد 4 نمبر کاپلاٹ خریدا تھا مگر بعد میں انہیں اپنے خوابوں کی تعبیر میں وہ سمایا نہیں اور پلاٹ چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس کی بجائے انہوں نے شہر سے باہر ساڑھے 3 سوایکڑ زمیں جنرل ضیاء الحق کی مدد سے خریدی اور اب یہیں ان کا “خواب” مکمل ہوا اور یہی ان کا “مدفن” بنا لیاقت آباد کے اس پلاٹ پر خونخوار کی نظر تھی مگر حکیم صاحب ٹس سے مس نہ ہوے تو کمبخت نے آقائوں کے اشارے پر جہنم کا ساماں خرید لیا مجھے کیوں یقیں ہے حکیم سعید کاقتل محض ایک پلاٹ کی پرخاش نہ تھی بلکہ سامراج کا بھی اس میں ہاتھ تھا ان کے قتل کے الزام میں کراچی پولیس نے 2 ماہ کے اندر 3 مختلف گروہ گرفتار کئے تیسرے گروہ نےرضاکارانہ اعتراف جرم کیا تو سینیر پولیس افسران اسے ایک طے شدہ ڈرامہ قرار دے رہے تھے جس کا مقصد تفتیش کو سبوتاژ کرنا اور تفتیشی ٹیموں کوگمراہ کرنا تھا اور بعد ازاں ہوابھی ایسے ہی جبکہ پہلا گروہ قتل سے آگاہ اور منصوبہ بندی میں شریک تھا دوسرا گروہ براہ راست قاتل تھا مگر تینوں گروہ کے اعترافی بیانات میں ایک نکتہ بہت اہم تھا کہ قتل کاحکم لندن سے براہ راست ملاتھا اور مسلسل اصرار تھاکہ جلد عملی جامعہ پہنایاجائے اور قتل اس طرح کیاجائے کہ ہرسو دہشت پھیل جائے اور نشانہ ایسے باندھاجائے کہ شہید کے زندہ بچنے کاکوئی امکان باقی نہ رہے دوسرے گروہ کو کراچی پولیس کے مایہ ناز تفتیشی انسپکٹر شاہد قریشی نے گرفتار کیاتھا اور ان کے ساتھ میں خود بھی اس گتھی کوحل کرنے کی خاطر تفتیش میں شامل رہاکہ حکیم سعید جیسے بے ضرر اور خداترس انسان کاایسا دشمن کون ہوسکتاہے جس نے قتل جیسا قبیح فعل تو کیاہی مگر دہشت وہ کسے دکھانا چاہتاتھا ماسوا اس کے کہ اس نے اپنے آقائوں کوخوش کرنے کی خاطرہی طریقہ واردات بہت ہی ظالمانہ اختیارکیا۔(آغا خالد)۔۔