سینئر صحافی، کالم نویس اور تجزیہ کار ایاز امیر کا کہنا ہے کہ ۔۔ انگریزی کا اخبار فرنٹئیر پوسٹ ضیا الحق کے زمانے میں پشاور اور لاہور سے چھپتا تھا۔ ایک روز چار لائنوں کی خبر فرنٹیئر پوسٹ کے صفحۂ اول پر چھپی کہ بیگم ضیا الحق فلاں ملک روانہ ہو رہی تھیں تو جہاز پر ان کے ہمراہ 40یا 45سوٹ کیسوں کو بھی لادا گیا۔ یہ چار سطری خبر کا چھپنا تھا کہ کہرام مچ گیا کہ اخبار کو ایسی خبر چھاپنے کی ہمت کیسے ہوئی۔ بات معافی تلافی تک پہنچ گئی لیکن اس زمانے میں تھوڑی سی بھی ایسی خبر سامنے آتی تو حکام اسے برداشت نہ کر سکتے۔ آج ہر مزاحیہ ٹک ٹاک برداشت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ چند لوگو ں کی بات ہوتی تو تھانیداروں کو ان کے پیچھے لگا دیا جاتا جو کہ یہاں کا آزمودہ طریقہ کار ہے لیکن جہاں بات لاکھوں کی ہو وہاں زور زبردستی بھی نہیں چلتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے حکام کو سوشل میڈیا کی وجہ سے مسلسل بخار چڑھا رہتا ہے۔ دنیانیوزمیں اپنے تازہ کالم میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ ۔۔جن چیزوں کے بارے میں ہم کچھ نہیں کر سکتے ان کا رونا کیا؟ جسے قیدی نمبر 804کہتے ہیں اسے اڈیالہ جیل سے نکالنے کی کوئی تدبیر ہمارے ذہن میں نہیں آ رہی۔ جسے مقتدرہ کہا جاتاہے اس کا ہم کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ مہنگائی ہمارے کنٹرول میں نہیں‘ کسی کے کنٹرول میں نہیں۔ معیشت کی بہتری کا ادراک کسی ذہن میں نہیں۔ بس ملک چل رہا ہے‘ آٹو پائلٹ پر یا کسی اور ذریعے سے‘ ہم نہیں جانتے۔ لیکن جن کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگیں دی گئی ہیں‘ ان کے حوالے سے کون سی خوش فہمیاں پالی جا رہی ہیں؟ یہ کس مرض کا علاج ہیں؟ کیا واقعی یہ سمجھا جا رہا ہے کہ یہ لوگ ملک کے موجودہ طوفانی اور بحرانی حالات سنبھال سکتے ہیں؟ پنجاب میں جو ہو رہا ہے وہ بھی دیکھ لیں‘ میڈم سی ایم سوائے فوٹو کھنچوانے کے اورکہیں مصروف نظر نہیں آتیں۔ ان کی پبلسٹی روزمرہ کی بنیاد پر ہو رہی ہے لیکن اس پبلسٹی کو عوامی سطح پر کوئی اہمیت مل رہی ہے؟ پنجاب کے طول و عرض میں میڈم سی ایم کو کوئی سنجیدگی سے لیتا ہے؟ مانا ان میں بڑا سٹائل ہے‘ اس لحاظ سے تو ان کو داد دینے کا جی چاہتا ہے‘ لیکن بات حکمرانی کی ہو رہی ہے اوراب تک تو ان کا انحصار کیمروں کی ہنرمندیوں پر ہی ہے۔ باقی کام بھی ایسے ہی چل رہا ہے‘ بیان بازیوں تک ہی سب کچھ محدود لگتا ہے۔